بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گود لیے بچی کے باپ کے نام کی جگہ اپنا نام لگانے کا حکم


سوال

 ایک شخص کو کسی نے اپنی  بیٹی دے دی ،  اور اس کی پرورش اور تربیت اس شخص کے ہاں ہوئی،  اب اس بچی کا نکاح ہونے جارہا ہے،  اور وہ شخص( جس نے بچی گود لی تھی) کہہ رہا ہے  کہ  نکاح فارم میں اس بچی کے والد کی جگہ میرا  نام لکھا جائے ، پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس طرح کرنا  کرنا درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ نکاح فارم پروالد کے نام والے خانے میں  دلہن کے حقیقی والد  کا نام لکھنا ضروری ہے، اس لیے کہ فارم پر لکھے ہوئے  والد کے نام کے خانے سے مراد حقیقی والد ہی کی شناخت ہوتی ہے،اور حقیقی والد کو چھوڑ کر کسی دوسرے شخص کی طرف نسبت کرنا شرعاً جائز نہیں ، حدیث شریف میں اس پر وعید بھی وارد ہوئی ہے،   لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ بچی کا شناختی کارڈ اور باقی دستاویزات    سوتیلے والد کے نام سے بنی ہوئی ہیں  تو   انہیں تبدیل کروایا جائے،  اور نکاح نامے میں بھی حقیقی والد کا نام لکھا جائے،  البتہ اگر انہیں تبدیل کرانا اب  مشکل  ہے (تو کوشش جاری رکھیں ؛ اب کوئی کام مشکل نہیں رہا ،  البتہ نہ ہو سکے )  تو  مجبوری کی صورت میں  نکاح نامے میں  سوتیلے والد  کانام بطورِ سرپرست لکھنے   کی گنجائش ہوگی، تاہم  مجلسِ نکاح میں اگر لڑکی موجود نہ ہو تو ایجا ب اور قبول میں حقیقی والد کا نام   پکارنا ضروری ہوگا۔
صحیح البخاری  میں ہے:

"عن سعد رضي الله عنه، قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: "من إدعى إلى غير أبيه، وهو يعلم أنه غير أبيه، فالجنة عليه حرام."

(باب من إدعی إلی غیر أبیه،ج:8،ص:156، ط:دارطوق النجاۃ)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(غلط وكيلها بالنكاح في اسم أبيها بغير حضورها لم يصح)؛ للجهالة وكذا لو غلط في اسم بنته إلا إذا كانت حاضرةً وأشار إليها فيصح.

 (قوله: لم يصح)؛ لأن الغائبة يشترط ذكر اسمها واسم أبيها وجدها، وتقدم أنه إذا عرفها الشهود يكفي ذكر اسمها فقط، خلافاً لابن الفضل، وعند الخصاف يكفي مطلقاً، والظاهر أنه في مسألتنا لا يصح عند الكل؛ لأن ذكر الاسم وحده لايصرفها عن المراد إلى غيره، بخلاف ذكر الاسم منسوباً إلى أب آخر، فإن فاطمة بنت أحمد لا تصدق على فاطمة بنت محمد، تأمل، وكذا يقال فيما لو غلط في اسمها، (قوله: إلا إذا كانت حاضرةً إلخ) راجع إلى المسألتين: أي فإنها لو كانت مشاراً إليها وغلط في اسم أبيها أو اسمها لا يضر؛ لأن تعريف الإشارة الحسية أقوى من التسمية؛ لما في التسمية من الإشتراك لعارض، فتلغو التسمية عندها، كما لو قال: اقتديت بزيد هذا فإذا هو عمرو، فإنه يصح."

(کتاب النکاح،ج 3،ص 26 ط:ايچ ایم سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504101112

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں