بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گود لی ہوئی بچی کے کاغذات میں والد کے خانے میں منہ بولے والد کا نام لکھوانے کا حکم


سوال

ہم نے 13 سال قبل ایک بچی کو گود لیا تھا، اس بچے کے حقیقی (سگے) والدین کا انتقال ہوگیا ہے، اب ہم اس بچی کے کاغذات بنوانا چاہتے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا میں گود لی ہوئی بچی کے بے فارم اور اس کے علاوہ تمام کاغذات میں والد کے خانے میں اپنا نام لکھواسکتا ہوں؟

جواب

شریعتِ  مطہرہ  میں لے پالک اور منہ بولے بیٹے،بیٹی  کی حقیقی اولاد  کی طرح حیثیت نہیں ہے،  اور کسی کو منہ بولا بیٹا،بیٹی بنانے سے وہ حقیقی بیٹا ،بیٹی نہیں بن جاتے اور نہ ہی ان پر حقیقی اولاد  والے اَحکام  جاری ہوتے ہیں،  البتہ گود  میں لینے  والے کو   بچے کی  پرورش، تعلیم و تربیت  اور اسے ادب و اخلاق  سکھانے کا ثواب ملتا ہے،  جاہلیت کے زمانے  میں یہ دستور تھا کہ لوگ لے پالک اور منہ بولی اولاد کو حقیقی اولاد کا درجہ دیتے تھے ، لیکن اسلام نے اس تصور  و رواج کو ختم کرکے یہ اعلان کردیا کہ منہ بولی اولاد حقیقی اولاد نہیں ہوسکتی اور لے پالک اور منہ بولی اولاد کو ان کے اصل والد کی طرف منسوب کرنا ضروری ہے۔  جب رسولﷺ نے زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا ”متبنیٰ“ (منہ بولا بیٹا)   بنایا اور لوگ ان کو ”زید بن محمد“ پکارنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں:

{وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا اٰبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا} [سورۃ الأحزاب: 4، 5]

ترجمہ:  اور  تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا  (سچ مچ کا) بیٹا نہیں بنادیا،  یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے ، تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو، یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے، اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں، اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجاوے تو اس سے تم پر کچھ گناہ نہ ہوگا، لیکن ہاں دل سے ارادہ کر کے کرو (تو اس پر مؤاخذہ ہوگا)، اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ (از بیان القرآن)

اس آیت کے نازل ہونے کے بعد صحابہ کرام حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے والد کی طرف منسوب کرکے ”زید بن حارثہ“  کے نام سے پکارنے لگے، لہذا اس سے معلوم ہوا کہ  کسی  بچے کو گود لینے سے وہ حقیقی بیٹایا بیٹی نہیں بنتے، نہ ہی ان پر حقیقی بچوں والے احکامات جاری ہوتے ہیں، اس لیے  لے پالک  کو اس کے حقیقی والد کی طرف منسوب کرنا ضروری ہے،شناختی کارڈ اور دیگر کاغذات میں اس کی ولدیت میں گود لینے والے کا نام بطور والد درج کرانا حرام اور ناجائز ہے، ہاں گود لینے والا شخص بطورِ سرپرست اس بچے کو اپنا نام دے سکتا ہے۔

ریاض الصالحین میں ہے:

"367 - باب تحريم انتساب الإِنسان إِلَى غير أَبيه وَتَولِّيه إِلَى غير مَواليه.

1/1802-عن سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام". متفق عليه".

ترجمہ: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : جس شخص نے اپنے والد کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو جانتے ہوئے اپنا والد قرار دیا تو اس پر جنت حرام ہے۔

"2/1803- وعن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "لا ترغبوا عن آبائكم، فمن رغب عن أبيه فهو كفر" متفق عليه".

ترجمہ: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اپنے والد سے بے رغبتی و اعراض مت کرو ؛ اس لیے کہ جو شخص اپنے والد سے اعراض (اپنے آپ کو کسی اور کی طرف منسوب) کرے گا تو یہ کفر ہے۔

"3/1804- وعن يزيد شريك بن طارق قال: رأيت عليا رضي الله عنه على المنبر يخطب، فسمعته يقول: لا والله ما عندنا من كتاب نقرؤه إلا كتاب الله، وما في هذه الصحيفة، فنشرها فإذا فيها أسنان الإبل، وأشياء من الجراحات، وفيها: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: .. ومن ادعى إلى غير أبيه، أو انتمى إلى غير مواليه، فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، لا يقبل الله منه يوم القيامة صرفا ولا عدلا". متفق عليه.".

ترجمہ: حضرت علی کرم اللہ وجہہ جناب رسول اللہ ﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں : جو شخص اپنے والد کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا والد قرار دے گا یا غیر کی طرف منسوب کرے گا تو اس پر اللہ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو، روز قیامت اللہ اس کی مالی عبادات قبول نہیں کرے گا۔

"4/1805- وعن أبي ذر رضي الله عنه أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "ليس من رجل ادعى لغير أبيه وهو يعلمه إلا كفر ... الخ".

ترجمہ: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : جانتے ہوئے کسی اور کے بارے میں والد ہونے کا دعوی کسی نے کیا تو اس نے کفر کیا ۔۔۔الحدیث۔

(كتاب الأمور المنهي عنها،باب تحريم انتساب الإنسان إلى غير أبيه،ص:498، ط: مؤسسة الرسالة، بيروت)

 اگر کوئی شخص کسی  بچے یا بچی  کو گود  لے کر اس  غرض سے اپنے پاس رکھے کہ میں اس کی تربیت  وپروش کروں گا، اور اسے اولاد کی طرح رکھوں گا، اوراس کے اخراجات ومصارف  اٹھاؤں گا، اور اس کے حقیقی والد سے اس کی نسبت منقطع نہ کرے   تو یہ جائز ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ کے لیے اس بچی کے بے فارم اور دیگر کاغذات میں والد کے خانے میں اپنا نام لکھوانا جائز نہیں ہے، بلکہ اس بچی کے تمام کاغذات میں والد کے خانے میں اس کے حقیقی والد کا نام لکھوانا ہی لازم ہے، البتہ آپ اس بچی کے کاغذات میں اپنا نام سرپرست کے خانے میں لکھواسکتے ہیں۔ نیز آپ پر لازم ہے کہ گود لی ہوئی بچی کو تمام صورتِ حال سے آگاہ کرکے اسے اس کے حقیقی والدین کے بارے میں بتادیں اور اس بات کا اہتمام کریں کہ آئندہ کے لیے اس بچی کو اس کے حقیقی والدین کی طرف ہی منسوب کر کے  لکھا اور پکارا جائے، نیز اگر بچی نے مدتِ رضاعت (دو سال یا زیادہ سے زیادہ ڈھائی سال ) میں آپ کی  بیوی یا آپ کی بہنوں یا آپ کی دیگر محارم عورتوں میں سے کسی کا بھی دودھ نہیں پیا تھا تو یہ گود لی ہوئی منہ بولی بیٹی آپ کے لیے نامحرم ہے، اس لیے اس لڑکی پرآپ سے دیگر غیر محرم لوگوں کی طرح پردہ کرنا لازم ہوگا ۔

تفسير ابن كثير میں ہے:

"وقوله: ﴿وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ﴾ : هذا هو المقصود بالنفي؛ فإنها نزلت في شأن زيد بن حارثة مولى النبي صلى الله عليه وسلم، كان النبي صلى الله عليه وسلم قد تبنّاه قبل النبوة، وكان يقال له: "زيد بن محمد"، فأراد الله تعالى أن يقطع هذا الإلحاق وهذه النسبة بقوله: ﴿وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ﴾ كما قال في أثناء السورة: ﴿ مَا كَانَ مُحَمّد اَبآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمًا﴾ وقال هاهنا: ﴿ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ ﴾ يعني: تبنيكم لهم قول لا يقتضي أن يكون ابناً حقيقياً، فإنه مخلوق من صلب رجل آخر، فما يمكن أن يكون له أبوان، كما لا يمكن أن يكون للبشر الواحد قلبان. ... وقوله: ﴿ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ﴾ : هذا أمر ناسخ لما كان في ابتداء الإسلام من جواز ادعاء الأبناء الأجانب، وهم الأدعياء، فأمر [الله] تعالى برد نسبهم إلى آبائهم في الحقيقة، وأن هذا هو العدل والقسط. قال البخاري، رحمه الله: حدثنا معلى بن أسد، حدثنا عبد العزيز بن المختار، حدثنا موسى بن عقبة قال: حدثني سالم عن عبد الله بن عمر؛ أن زيدا بن حارثة مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ما كنا ندعوه إلا زيد بن محمد، حتى نزل القرآن: ﴿ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ﴾ . وأخرجه مسلم والترمذي والنسائي، من طرق، عن موسى بن عقبة، به ۔ وقد كانوا يعاملونهم معاملة الأبناء من كل وجه، في الخلوة بالمحارم وغير ذلك؛ ولهذا قالت سهلة بنت سهيل امرأة أبي حذيفة: يا رسول الله، كنا ندعو سالماً ابناً، وإن الله قد أنزل ما أنزل، وإنه كان يدخل علي، وإني أجد في نفس أبي حذيفة من ذلك شيئاً، فقال صلى الله عليه وسلم: "أرضعيه تحرمي عليه" الحديث. ولهذا لما نسخ هذا الحكم، أباح تعالى زوجة الدعي، وتزوج رسول الله صلى الله عليه وسلم بزينب بنت جحش زوجة زيد بن حارثة، وقال: ﴿ لِكَيْ لَا يَكُوْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ حَرَج فِيْ اَزْوَاجِ اَدْعِيَآئِهِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا﴾ [الأحزاب:37] ، وقال في آية التحريم: ﴿وَحَلَآئِلُ اَبْنَآئِكُمُ الَّذِيْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ﴾، احترازاً عن زوجة الدعي، فإنه ليس من الصلب، فأما الابن من الرضاعة، فمنزل منزلة ابن الصلب شرعاً، بقوله عليه السلام في الصحيحين: "حرموا من الرضاعة ما يحرم من النسب" . فأما دعوة الغير ابناً على سبيل التكريم والتحبيب، فليس مما نهي عنه في هذه الآية، بدليل ما رواه الإمام أحمد وأهل السنن إلا الترمذي، من حديث سفيان الثوري، عن سلمة بن كهيل عن الحسن العرني، عن ابن عباس، رضي الله عنهما، قال: قدمنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم أغيلمة بني عبد المطلب على حمرات لنا من جمع، فجعل يلطخ أفخاذنا ويقول: "أبيني لا ترموا الجمرة حتى تطلع الشمس "  . قال أبو عبيد وغيره: "أبيني" تصغير بني  . وهذا ظاهر الدلالة، فإن هذا كان في حجة الوداع سنة عشر، وقوله:ادعوهم لآبائهم} في شأن زيد بن حارثة، وقد قتل في يوم مؤتة سنة ثمان، وأيضا ففي صحيح مسلم، من حديث أبي عوانة الوضاح بن عبد الله اليشكري، عن الجعد أبي عثمان البصري، عن أنس بن مالك، رضي الله عنه، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: "يا بني". ورواه أبو داود والترمذي .

وقوله: {فإن لم تعلموا آباءهم فإخوانكم في الدين ومواليكم} : أمر الله تعالى برد أنساب الأدعياء إلى آبائهم، إن عرفوا، فإن لم يعرفوا آباءهم، فهم إخوانهم في الدين ومواليهم، أي: عوضا عما فاتهم من النسب. ولهذا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم خرج من مكة عام عمرة القضاء، ...  وقال لزيد: "أنت أخونا ومولانا".

ففي هذا الحديث أحكام كثيرة من أحسنها: أنه، عليه الصلاة والسلام ... قال لزيد: "أنت أخونا ومولانا"، كما قال تعالى: {فإخوانكم في الدين ومواليكم} ... وقد جاء في الحديث: "من ادعى لغير أبيه، وهو يعلمه، كفر  وهذا تشديد وتهديد ووعيد أكيد، في التبري من النسب المعلوم؛ ولهذا قال: {ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله فإن لم تعلموا آباءهم فإخوانكم في الدين ومواليكم} ...  وفي الحديث المتقدم: "من ادعى إلى غير أبيه، وهو يعلمه، إلا كفر". وفي القرآن المنسوخ: "فإن  كفرا بكم أن ترغبوا عن آبائكم". قال الإمام أحمد: حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود، عن ابن عباس، عن عمر أنه قال: بعث الله  محمدا صلى الله عليه وسلم بالحق، وأنزل معه الكتاب، فكان فيما أنزل عليه آية الرجم، فرجم رسول الله صلى الله عليه وسلم، ورجمنا بعده. ثم قال: قد كنا نقرأ: "ولا ترغبوا عن آبائكم [فإنه كفر بكم -أو: إن كفرا بكم -أن ترغبوا عن آبائكم] ... ورواه في الحديث الآخر: "ثلاث في الناس كفر: الطعن في النسب، والنياحة على الميت، والاستسقاء بالنجوم". 

(سورة الأحزاب، الآية:4، 6/ 336، ط: دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) حرم (الكل) مما مر تحريمه نسباً، ومصاهرةً (رضاعاً) إلا ما استثني في بابه.

و في الرد : (قوله: نسباً) تمييز عن نسبة تحريم للضمير المضاف إليه، وكذا قوله: مصاهرةً، وقوله: رضاعاً تمييز عن نسبة تحريم إلى الكل، يعني يحرم من الرضاع أصوله وفروعه وفروع أبويه وفروعهم، وكذا فروع أجداده وجداته الصلبيون، وفروع زوجته وأصولها وفروع زوجها وأصوله وحلائل أصوله وفروعه".

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، 3/ 31، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100073

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں