بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جھوٹی طلاق کی خبر دینے کا حکم


سوال

 زید نے اپنی  بیوی کو کوئی بھی طلاق نہیں دی،  اس کے دل میں شک تھا، اس شک کی بنا پر کسی مفتی صاحب سے موبائل پر مسٔلہ معلوم کررہا تھا، مفتی صاحب نے پوچھا کہ کہیں آپ نے بیوی کو طلاق کے الفاظ تو نہیں بولےتھے،تو زید پر زیادہ وسوسے طاری تھے اس نےمفتی صاحب کو طلاق کی جھوٹی خبر دی،زید کو بعد میں خیال آیا کہ یہ تو جھوٹ بولا میں نے، کیوں کہ حقیقت میں بیوی کو کوئی بھی طلاق نہیں دی تھی،اور نہ بیوی کے سامنے طلاق کا ذکر کیا ہے، زید کو مسٔلہ معلوم کرنا تھا (تو مفتی صاحب اس سے بھی طلاق واقع ہوگی) یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ شک،   وسوسے اور طلاق سے متعلق معلومات کی غرض سے سوال پوچھنے سے تو طلاق واقع نہیں ہوتی، البتہ گواہ بنانے کے بغیر جھوٹی طلاق کی خبر دینے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے۔لہذاصورت مسئولہ میں جھوٹی طلاق کے اقرار پر گواہ بنانے کے بغیرجھوٹی طلاق کی خبر دینے سے طلاق واقع ہو گئی ہے، اگر ایک طلاق کا اقرار کیا ہے تو ایک طلاق،  اور اگر دو طلاق کا اقرار کیا ہے تو دو طلاق، اور اگر تین طلاق کا اقرار کیا ہے تو تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں ۔

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا القعنبي، حدثنا عبد العزيز يعني ابن محمد، عن عبد الرحمن بن حبيب، عن عطاء بن أبي رباح، عن ابن ماهك، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ثلاث جدهن جد، وهزلهن جد: النكاح، والطلاق، والرجعة".

(سنن أبي داود، باب في الطلاق على الهزل، ج: 2، صفحہ: 259، رقم الحدیث: 2194، ط: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولوأقر بالطلاق كاذباً أوهازلاً وقع قضاءً لا ديانة".

(کتاب الطلاق، ج: 3، صفحہ: 236، ط: سعید) 

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"ولو أكره على أن يقر بالطلاق فأقر لا يقع كما لو أقر بالطلاق هازلا أو كاذبا كذا في الخانية من الإكراه ومراده بعدم الوقوع في المشبه به عدمه ديانة لما في فتح القدير ولو أقر بالطلاق وهو كاذب وقع في القضاء اهـ.

وصرح في البزازية بأن له في الديانة إمساكها إذا قال أردت به الخبر عن الماضي كذبا، وإن لم يرد به الخبر عن الماضي أو أراد به الكذب أو الهزل وقع قضاء وديانة واستثنى في القنية من الوقوع قضاء ما إذا شهد قبل ذلك لأن القاضي يتهمه في إرادته الكذب فإذا أشهد قبله زالت التهمة".

( كتاب الطلاق، ج: 3، صفحه: 264، ط: ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100799

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں