بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے


سوال

ایک لڑکا جس کی عمر۲۳ سال ہے اور ابھی ابھی والد کے کاروبار پر جانا شروع کیا ہے، والد جھوٹ بولنے پر مجبور کرتے ہیں لیکن لڑکا دل سے اس بات پر راضی بھی نہیں اور لڑکے کے لیے کسی اور روزگار کو کرنا بھی بہت مشکل ہے جب کہ لڑکے کی نیت یہ ہے کہ ابھی تو والد کے اختیار میں ہے کاروبار جب میرے اختیار میں ہو گا تو میں ہر لحاظ سے شریعت کاحکم مانو ں گا،  اب اس لڑکے کے لیےجھوٹ بولنے کی گنجائش ہے یا نہیں؟

جواب

جھوٹ بولنا حرام اورگناہ کبیرہ ہے، حدیث مبارکہ میں جھوٹ کو منافق کی علامت کہا گیا ہے، نیز ایک اور حدیث شریف کے مطابق سچائی کاروبارمیں برکت کا باعث بنتی ہے اور جھوٹ کی وجہ سے کاروبار کی برکت ختم ہوجاتاہے، لہذا مذکور لڑکے کو چاہیے کہ والد کو حکمت وبصیرت کے ساتھ سمجھائے اور  کے نقصانات اور سچ کےفوائد  حکمت ،بصیرت اور ادب میں رہتے ہوئے بتائے جائیں اور ان کے لیے خوب دعائیں بھی کریں، امید ہے کہ وہ باز  آجائیں گےیا پھر کم ازکم بیٹے کو جھوٹ بولنے پر مجبور نہیں کریں گے۔

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا سليمان أبو الربيع قال حدثنا إسماعيل بن جعفر قال حدثنا نافع بن مالك بن أبي عامر أبو سهيل عن أبيه عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال آية المنافق ثلاث إذا حدث كذب وإذا وعد أخلف وإذا اؤتمن خان".

(صحیح البخاری، باب علامة المنافق،ج: ۱، صفحہ: ۱۶،ط: دار طوق النجاة

مظاہرِ حق شرح مشکاۃ شریف میں ہے:

’’حضرت ابوذررضی اللہ عنہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  تین شخص ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ تو ان سے مہربانی وعنایت کا کلام کرے گا، نہ بنظر رحمت و عنایت ان کی طرف دیکھے گا، اور نہ ان کو گناہوں سے پاک کرے گا، اور ان تینوں کے لیے درد ناک عذاب ہے،  ابوذر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیروبھلائی سے محروم اور اس ٹوٹے میں رہنے والے وہ کون شخص ہیں؟  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک تو پائنچے لٹکانے والا، دوسرا کسی کو کوئی چیز دے کر احسان جتانے والا، اور تیسرا جھوٹی قسمیں کھا کر اپنی تجارت بڑھانے والا۔ (مسلم)"

تشریح : پائنچے لٹکانے والے سے مراد وہ شخص ہے جو ازراہِ تکبر ٹخنوں سے نیچاپا جامہ پہنتا ہے، چناں چہ اس میں وہ شخص بھی داخل ہے جو ٹخنوں سے نیچا کرتہ پہنے۔ احسان جتانے کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے ساتھ کوئی اچھا سلوک کر کے مثلاً کسی کو کوئی چیز دے کر یا کسی کے ساتھ ہم دردی کا کوئی معاملہ کر کے اسے زبان پر لایا جائے، چناں چہ جو شخص کسی کے ساتھ ہم دری واعانت کا کوئی معاملہ کر کے پھر اس پر احسان جتاتا ہے تو وہ ثواب سے محروم رہتا ہے۔ جھوٹی قسمیں کھا کر تجارت بڑھانے والے سے مراد وہ تاجر ہے جو زیادہ نفع حاصل کرنے کے لیے یا اپنا مالِ تجارت بڑھانے کے لیے جھوٹی قسمیں کھائے، مثلاً اس نے کوئی چیز نوے روپے میں خریدی ہو مگر اپنے خریدار سے اس کی زیادہ قیمت وصول کرنے کے لیے یا اس کی مالیت بڑھانے کے لیے جھوٹی قسم کھا کر کہے کہ اللہ کی قسم میں نے یہ چیز سو روپے میں خریدی ہے‘‘۔(مظاہر حق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101715

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں