بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 شوال 1445ھ 17 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گوشت کے حصول کے لیے ذبح کیے جانے والے جانور کی عمر


سوال

اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ چھوٹے جانور یعنی بکرا یا بکری کے گوشت کے قصائی حضرات بہت ہی چھوٹی عمر کے بکرے کاٹ کر بیچ رہے ہوتے ہیں جن سے ان جانوروں کی نسل کشی بھی ہو رہی ہے اور کھانے میں بھی عجیب سا ذائقہ ہوتا ہے اور یہی عمل بڑے جانور یعنی بھینس یا گائے کے قصائی حضرات بھی کرتے ہیں ۔جب کہ اسلام میں قربانی کے جانور کے بارے میں ان کی عمر متعین کی گئی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ شریعت میں گوشت کے حصول کےلیے ذبح کیے جانے والے   جانوروں کی عمر کے بارے میں کیا حکم ہے ؟

جواب

واضح  رہے کہ  شریعتِ مطہر ہ میں قربانی کے جانوروں کے لیے عمر کی قید لگائی گئی ہے،اس کے علاوہ گوشت حاصل کرنے کے لیے شریعت میں کسی جانور کے عمر کی تحدید کا بیان نہیں ہے، بخاری شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ ’’جب خندق کی کھدائی والے دن حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی دعوت کی جس میں ’’عناق‘‘: (بکری کا چھوٹا بچہ،جس کی عمر چار  ماہ تک تھی )  ذبح کیا،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تناول فرمایا ‘‘؛  لہٰذا  گوشت حاصل کرنے کے لیے جس حلال جانور میں جان آجائے  چاہے وہ کتنی ہی عمر کا کیوں نہ ہو ، اس کوذبح کرکے  اس کا گوشت کھانا جائزہے۔

نیز  قربانی میں حاملہ یا گابھن جانور   کو ذبح کرنا بھی  جائز ہے،تاہم اگر بچے کی ولادت بالکل قریب ہو تو اس کو ذبح کرنا مکروہ ہے،اور  ذبح کرنے کی صورت میں اگر جانور کے پیٹ سے بچہ زندہ نکل آئے تو اس کو بھی ذبح کردیا جائے اور اس کا گوشت بھی حلال ہوگا،اور اگر مردہ بچہ نکل آئے تو اس کا گوشت استعمال کرنا جائز نہیں۔ اور قربانی کے علاوہ عام حالت میں حاملہ جانور ذبح کرنے کے نتیجے میں بچہ زندہ نکل آئے تو اسے ذبح کرنا ضروری نہیں ہوگا۔

بخاری شریف میں ہے:

" حدثنا ‌خلاد بن يحيى: حدثنا ‌عبد الواحد بن أيمن، عن ‌أبيه قال: أتيت ‌جابرا رضي الله عنه فقال: «إنا يوم الخندق نحفر، فعرضت كدية شديدة، فجاءوا النبي صلى الله عليه وسلم فقالوا: هذه كدية عرضت في الخندق، فقال: أنا نازل. ثم قام وبطنه معصوب بحجر، ولبثنا ثلاثة أيام لا نذوق ذواقا، فأخذ النبي صلى الله عليه وسلم المعول فضرب، فعاد كثيبا أهيل، أو أهيم، فقلت: يا رسول الله، ائذن لي إلى البيت، فقلت لامرأتي: رأيت بالنبي صلى الله عليه وسلم شيئا ما كان في ذلك صبر، فعندك شيء؟ قالت: عندي شعير وعناق، فذبحت العناق، وطحنت الشعير حتى جعلنا اللحم في البرمة، ثم جئت النبي صلى الله عليه وسلم والعجين قد انكسر، والبرمة بين الأثافي قد كادت أن تنضج، فقلت: طعيم لي، فقم أنت يا رسول الله، ورجل أو رجلان، قال: كم هو. فذكرت له، قال: كثير طيب، قال: قل لها: لا تنزع البرمة، ولا الخبز من التنور حتى آتي، فقال: قوموا. فقام المهاجرون والأنصار، فلما دخل على امرأته قال: ويحك جاء النبي صلى الله عليه وسلم بالمهاجرين والأنصار ومن معهم، قالت: هل سألك؟ قلت: نعم، فقال: ادخلوا ولا تضاغطوا. فجعل يكسر الخبز، ويجعل عليه اللحم، ويخمر البرمة والتنور إذا أخذ منه، ويقرب إلى أصحابه ثم ينزع، فلم يزل يكسر الخبز، ويغرف حتى شبعوا وبقي بقية، قال: كلي هذا وأهدي، فإن الناس أصابتهم مجاعة".

(كتاب المغازي،باب غزوة الخندق وهى الأحزاب،ج:5،ص:108،ط:السلطانية)

"عمدة القاري"میں ہے:

"والعناق، بفتح العين وتخفيف النون: ولد المعز إذا أتى عليه أربعة أشهر وفصل من أمه وقوي على الرعي، فإن كان ذكرا فهو جدي، وإن كان أنثى فهو عناق، فإذا أتى عليه حول فالذكر ثني والأنثى عنز، ثم يكون جذعا في السنة الثانية".

(كتاب الزكاة،باب لا تؤخذ كرائم أموال الناس في الصدقة،ج:9،ص:23،ط:دار إحياءا لتراث العربي)

البحر الرائق میں ہے:

"وقال أبو يوسف ومحمد وجماعة أخرى إذا تم خلقه حل أكله بذكاتها ".

(كتاب الذبائح،مايكره في الذبح،ج:8،ص:194،ط:دارالكتاب الإسلامي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

’’شاة أو بقرة أشرفت على الولادة، قالوا: يكره ذبحها؛ لأن فيه تضييع الولد‘‘.

(کتاب الذبائح،الباب الأول في ركن الذبح وشرائطه وحكمه وأنواعه،ج:5،ص:287،ط:ماجدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100479

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں