بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غسل کے بعد وضو کا حکم اور سر کا مسح فرض نہ ہونے کی وجہ


سوال

غسل کرنے سے یا بارش میں نہا لینے سے وضو ہوجاتا ہے یا نہیں؟ اگر ہوجاتا ہے تو مسح کا کیا حکم ہےحالانکہ وہ تو فرض ہے ؟

جواب

غسل سے پہلے وضو سنت ہے،غسل کے بعد وضو کرنے کی ضرورت نہیں ،غسل کرنے  یا بارش میں نہا لینے سے وضو ہوجاتا ہے،کیونکہ وضو :منہ ،ہاتھ اور پاؤں دھونے اور سر کے مسح کا نام ہے،جب آدمی غسل کرتا ہے (یعنی پورے جسم پر پانی بہاتا ہے )تو  اعضا بھی دھل جاتے ہیں،اور وضو بھی ہوجاتا ہے۔

نیز  غسل میں جب سر کو دھو لیا تو مسح کی ضرورت نہیں ،کیونکہ ادنی ،اعلی کے تحت داخل ہوتا ہے۔

ہاں اگر غسل کے بعد حدث پیش آ جائے تو ایسی صورت میں وضو کرنا ضروری ہو گا۔

"ترمذی شریف"  میں ہے:

"عن عائشة أن النبي صلي الله عليه وسلم كان لايتوضأ بعد الغسل. قال أبو عيسی: هذا قول غير واحد من أصحاب النبي صلي الله عليه وسلم و التابعين أن لايتوضأ بعد الغسل".

(أبواب الطهارة، باب في الوضوء بعد الغسل ١/ ٣٠، ط: قديمي)

"معارف السنن"  میں ہے:

"و يقول القاضي في العارضة: لم يختلف أحد من العلماء في أن الوضوء داخل في الغسل..."الخ

(أبواب الطهارة، باب الوضوء بعد الغسل، ١/ ٣٦٨، ط: مجلس الدعوة و التحقيق)

"الدر المختار" میں ہے:

"لو توضأ أولا لا يأتي به ثانيا؛ لأنه لا يستحب وضوءان للغسل اتفاقا.

و في الرد : "قال العلامة نوح آفندي: بل ورد ما يدل علی كراهته، أخرج الطبراني في الأوسط عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسو الله صلي الله عليه وسلم: من توضأ بعد الغسل فليس منا اهـ تأمل، و الظاهر أن عدم استحبابه لو بقي متوضئاً إلى فراغ الغسل، فلو أحدث قبله ينبغي إعادته، و لم أره، فتأمل."

(كتاب الطهارة ،١/ ١٥٨، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100324

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں