بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 رمضان 1445ھ 30 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

گورنمنٹ یا کسی کمپنی سے آکشن (نیلامی) کے ذریعے مال کی خرید وفروخت کا حکم


سوال

‎گورنمٹ یا کوئی  کمپنی جو اشیاء آکشن کے ذریعے بیچتی ہے، کیا وہ اشیاء خرید کر آگے بیچنا جائز ہے، یعنی اس طرح کاروبار کر سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص اپنی ملکیت کی چیز  آکشن (نیلامی۔auction) کے ذریعے فروخت کرے تو اس کو خریدنا اور آگے بیچنا جائز ہے، نیلامی سے مراد یہ ہے کہ: بیچنے والا اعلان کرتا ہے کہ میں یہ چیز بیچ رہا ہوں، کون خریدے گا؟ اور اس میں جو زیادہ بولی لگاتا ہے بیع اس کے حق میں منعقد ہوجاتی ہے، اس طرح سے خرید وفروخت جائز ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 103):

"(لا) يكره (بيع من يزيد) لما مر ويسمى بيع الدلالة.

(قوله: لما مر) أي قريبًا من قوله: وقد باع عليه الصلاة والسلام ..." إلخ

وفیه أيضًا (5 / 102):

"وهذا (بعد الاتفاق على مبلغ الثمن) أو المهر (وإلا لا) يكره؛ لأنه بيع من يزيد، «وقد باع عليه الصلاة والسلام قدحًا وحلسًا ببيع من يزيد»".

باقي  اگر گورنمنٹ اپنی   ملکیتی اشیاء اس طرح نيلامي كے ذریعے فروخت کرے تو  ان سے وہ اشیاء خریدنا جائز ہے، لیکن اگر حکومت  کسٹم نہ دینے کی صورت میں یا کسی اور وجہ سے جو امپورٹ کیا ہوا  مال ضبط کرکے  اس کی نیلامی کرتی  ہے،  اس کو عرف میں کسٹم کا مال کہا جاتا ہے، اس کا حکم کچھ تفصیل ہے، جو درج ذیل ہے:

کسٹم کے مال کی  تقریباً پانچ  صورتیں ہیں:

1) جرمانہ کی صورت میں ضبط کیا ہوا مال

2) ڈیوٹی کا مال

3) ڈیمرج  ( Demurrage) زیادہ لاگو ہونے کی وجہ سے چھوڑا گیا  مال

4) رضامندی سے چھوڑا ہوا مال

5) لاوارث مال

ان  پانچوں صورتوں  کے مال کی خرید وفروخت  کا حکم درج ذیل ہے:

         (1)        جرمانہ کی صورت میں ضبط کیا ہوا مال:

حکومت بعض اموال امپورٹر سے جرمانہ کے طور پر ضبط کرلیتی ہے، مثلًا:

1۔ قانون کے خلاف مال آئے تو حکومت ضبط کرلیتی ہے۔

2۔ بعض اوقات مخصوص مقدار تک سامان بیرون ممالک سے امپورٹ کرنے کی اجازت ہوتی ہے، اس سے زیادہ امپورٹ  کرنے کی اجازت نہیں ہوتی، اگر کوئی امپورٹر اس مخصوص مقدار سے زائد مال لایا تو حکومت ایسا مال وسامان ضبط کرلیتی ہے۔

3۔بعض چیزیں امپورٹ کرنا قانونی اعتبار سے منع ہے، اگر کوئی امپورٹر  ایسی ممنوع چیز لے کر آتا ہےتو حکومت ضبط  کرلیتی ہے۔

ان صورتوں کے علاوہ مال ضبط کرنے کی اور بھی صورتیں ہوں گی۔

بہر حال امپورٹر کا مال ضبط کرنا اور اسے جرمانہ کے طور پر اپنی تحویل میں لینا جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ مالی جرمانہ لاگو کرنا شرعاً صحیح نہیں ہے، البتہ حکومت جائز قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دے سکتی ہے؛ لہذا حکومت ایسا مال نیلام کرے تو معلوم ہونے کی صورت میں ایسا مال خریدنا اور بولی میں حصہ لینا جائز نہیں ہے۔

         (2)      ڈیوٹی کا مال:

ڈیوٹی سے مراد وہ مال ہے جو امپورٹر کو باہر ممالک سے  قانونی طور پر منگوانے کی اجازت ہوتی ہے اور حکومت اس پر ڈیوٹی (ٹیکس) عائد کرتی ہے، اس میں سیلز ٹیکس اور دوسرے ٹیکسز شامل ہوتے ہیں، بعض اوقات  ایسا ہوتا ہے کہ امپورٹر ٹیکس اور ڈیوٹی ادا نہیں کرتے، حکومت ان کو نوٹس دیتی ہے کہ اتنے دنوں تک اپنی ڈیوٹی ادا کرکے اپنا مال اٹھالیں ورنہ سارا مال ضبط کرلیا جائے گا، اس نوٹس کے بعد بعض لوگ   ٹیکس اور ڈیوٹی ادا کرکے اپنا  سامان اٹھالیتے ہیں، بعض لوگ ڈیوٹی ادا نہیں کرتے اور مال وہیں چھوڑدیتے ہیں اور حکومت اس کو ضبط کرلیتی ہے،  پھر اس کو فروخت کرکے اپنا ٹیکس وصول کرتی ہے، جان بوجھ کر ایسے مال کو خریدنے سے بھی بچنا چاہیے، اس لیے کہ اس کو بیچنے  پر اصل مالک راضی نہیں ہے اور اصل مالک کی اجازت کے بغیر مال بیچنا جائز نہیں ہوتا۔

         (3)     ڈیمرج  ( Demurrage) زیادہ لاگو ہونے کی وجہ سے چھوڑا گیا  مال:

امپورٹر جب باہر ممالک سے مال منگواتا ہے تو بعض اوقات  ائیرپورٹ  اور بندرگاہ وغیرہ سے بروقت مال کو کلیئر نہیں کیا جاتا اور اس کا  ڈیمرج ( Demurrage) بڑھ جاتا ہے، ڈیمرج کبھی مال کے برابر بلکہ اس سے بھی زیادہ بن جاتا ہے، ایسی صورت میں نوٹس دینے کے باجود امپورٹر مال کلیئر کرکے مال وصول نہیں کرتا، اور وہ گودام میں پڑا رہتا ہے، بعد میں کسٹم  حکام ڈیمرج حاصل کرنے کے لیے  اسے نیلام کردیتے ہیں، کسٹم حکام کے لیے ڈیمرج حاصل کرنا جائز ہے، کیوں کہ یہ اصل میں اس گودام یا جگہ کا کرایہ ہے  جہاں مال رکھا گیا ہے، لہذا کسٹم والے ایسا مال نیلام کرکے ڈیمرج کی حد تک اپنا حقِ اجرت وصول کرسکتے ہیں، اور کسٹم والوں سے ایسا مال خریدنا بھی جائز ہے، اگر ڈیمرج کی رقم سے زیادہ پر فروخت ہو تو کسٹم والوں پر بقیہ رقم اصل مالک  یا اس کے ورثاء تک پہنچانا لازم ہوگا۔

         (4)     رضامندی سے چھوڑا ہوا مال:

بعض اوقات امپورٹر کسی خاص وجہ کی بنا پر  اپنا درآمد کیا ہوا مال وصول نہیں کرتا، مثلاً بعض اموال کو برآمد کرنے پر پابندی ہے اور بعض اموال  کے برآمد کی اجازت ہے، مگر حکومت کی جانب سے ایک حد متعین ہے، لیکن کچھ امپورٹر اس  طرح کا مال چھپا کر زیادہ لے آتے ہیں، اور ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ اگر پکڑا گیا تو چھوڑدیں یا کچھ رقم دے کر چھڑالیں گے، لیکن ایسا آسان نہیں ہوتا۔ اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے  سستا اور کم قیمت سامان منگوایا جاتا ہے،  لیکن اس پر ڈیوٹی زیادہ لگتی ہے، ڈیوٹی دے کر چھڑانے میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا، لہذا ایسے مال کو پورٹ میں چھوڑدیا جاتا ہے، کسٹم والوں کی طرف سے نوٹس بھی ملتا ہے، لیکن امپورٹر ایسے مال کو وصول نہیں کرتا تو ایسے مال کا حکم ”لقطہ“ کا ہے، کسٹم والوں کے لیے ایسے مال کو نیلام کرنا اور لوگوں کے لیے ایسے مال کو خریدنا جائز ہے، تاہم کسٹم والوں پر جگہ کی اجرت وغیرہ نکال کر باقی رقم مالک کو واپس کردینا ضروری ہے۔

         (5)     لاوارث مال:

کبھی کبھار  ایسا ہوتا ہے کہ کسٹم  میں  کسی نے مال بھیجا، لیکن بعد میں اس نے کسی وجہ سے مال وصول کرنے کے لیے رابطہ نہیں کیا اور کسٹم حکام بھی بعض دفعہ کسی وجہ سے رابطہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں، ایسے مال کا حکم بھی ’’لقطہ‘‘ والا ہوگا، ایسی صورت میں کسٹم حکام جب تک ممکن ہو مالک کے آنے کا انتظار کریں اور اگر انہوں نے اتنی مدت تک انتظار کیا کہ مالک آنا چاہتا تو آسکتا لیکن خود بھی نہیں آیا، رابطہ بھی نہیں کیا، کسی وکیل  اور نمائندہ کو بھی نہیں بھیجا  تواس صورت میں  مجبوراً کسٹم حکام اس مال کو فروخت کرسکتے ہیں اور لوگوں کے لیے ایسے مال کو خریدنا بھی جائز ہے، البتہ مال فروخت کرنے کے بعد  جو رقم ملے گی وہ  کسٹم حکام کے لیے حلال نہیں ہوگی۔ بلکہ مالک کے لیے محفوظ رکھنی ہوگی، اور فروخت کرنے کے بعد اگر مالک آجائے تو رقم اس کو دے دیں، ورنہ اس کی رقم لاوارث، ضرورت مند، غربا اور فقراء پر صدقہ کردی جائے،یا ان کی ضرویات میں صرف کردی جائے۔

اور  مذکورہ صورتوں میں اگر خریدار کو حکومت کی طرف سے نیلام کردہ سامان  کے بارے میں اصل صورتِ حال کا یقینی علم نہ ہو تو چوں کہ اس میں یہ احتمال موجود ہے  کہ ’’لقطہ‘‘ ہونے کی صورت میں متعلقہ ادارے نے اس کی تشہیر کرائی ہوگی اور مالک کو تلاش کیا ہوگا، اور مالک کے ملنے سے مایوسی کے بعد اس کو فروخت کیا جارہا ہے، یا یہ سامان کسی واجبی حق کی وصول یابی کے لیے نیلام کیا جارہا ہے، مثلاً حکومت یا اس کے متعلقہ ادارے کے پاس گروی  رکھا ہوا سامان وغیرہ، یا ڈیمرج کی وصولی کے لیے فروخت کیا جار ہا ہے یا رضامندی سے چھوڑا ہوا مال ہے،  (اور خریدار کو یقینی طور پر اس کا علم بھی نہیں ہے) اور وہ یہ سامان خریدلے تو اس کی آمدنی کو ناجائز نہیں کہا جائے گا، البتہ ایسی صورت میں  اس کے خریدنے سے اجتناب کرنا بہتر ہے۔

السنن الكبرى میں ہے:

" عن شرحبيل مولى الأنصار عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " من اشترى سرقةً وهو يعلم أنها سرقة فقد أشرك في عارها وإثمها ".

(السنن الكبرى للبيهقي (5/ 548) کتاب البیوع، باب كراهية مبايعة من أكثر ماله من الربا أو ثمن المحرم، ط: دار الكتب العلمية، بيروت – لبنان)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (5/ 170):

"(قوله: وينتفع بها لو فقيراً وإلا تصدق على أجنبي ولأبويه وزوجته وولده لو فقيراً) أي ينتفع الملتقط باللقطة بأن يتملكها بشرط كونه فقيراً نظراً من الجانبين كما جاز الدفع إلى فقير آخر، وأما الغني فلايجوز له الانتفاع بها، فإن كان غير الملتقط فظاهر للحديث فإن لم يجئ صاحبها فليتصدق بها، والصدقة إنما تكون على الفقير كالصدقة المفروضة وإن كان الملتقط فكذلك ... وإنما فسرنا الانتفاع بالتملك؛ لأنه ليس المراد الانتفاع بدونه كالإباحة، ولذا ملك بيعها وصرف الثمن إلى نفسه كما في الخانية أطلق في عدم الانتفاع للغني فشمل القرض ولذا قال في فتح القدير وليس للملتقط إذا كان غنياً أن يتملكها بطريق القرض إلا بإذن الإمام وإن كان فقيرا فله أن يصرفها إلى نفسه صدقةً لا قرضاً اهـ".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 390):

"قلت: وسيجيء في الحجر أنه يباع ماله لدينه عندهما وبه يفتى وحينئذ فلا يتأبد حبسه فتنبه.

(قوله: وحينئذ فلايتأبد حبسه) أي على قولهما، وكذا على قوله إن كان ماله غير عقار ولا عرض بل كان من الأثمان، ولو خلاف جنس الدين كما قدمناه".

وفیه أيضًا (5/ 387):

" لايبيع القاضي عرضه ولا عقاره للدين خلافاً لهما، وبه أي بقولهما يبيعهما للدين يفتى، اختيار، وصححه في تصحيح القدوري ويبيع كل ما لايحتاجه للحال اهـ".

    وفیه أیضاً:

"وفيه: الحرام ينتقل، فلو دخل بأمان وأخذ مال حربي بلا رضاه وأخرجه إلينا ملكه وصح بيعه، لكن لايطيب له ولا للمشتري منه".

 (قوله: الحرام ينتقل) أي تنتقل حرمته وإن تداولته الأيدي وتبدلت الأملاك، ويأتي تمامه قريباً (قوله: ولا للمشتري منه) فيكون بشرائه منه مسيئاً؛ لأنه ملكه بكسب خبيث، وفي شرائه تقرير للخبث، ويؤمر بما كان يؤمر به البائع من رده على الحربي؛ لأن وجوب الرد على البائع إنما كان لمراعاة ملك الحربي ولأجل غدر الأمان، وهذا المعنى قائم في ملك المشتري كما في ملك البائع الذي أخرجه".

(5/ 98، کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، مطلب الحرمة تتعدد، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144203200512

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں