بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گڈوِل کی شرعی حیثیت


سوال

 شراکت داری کے کاروبار میں، ایک پارٹنر اپنی مرضی سے کاروبار سے الگ ہوتا ہے، ہم اس کا اصل حصہ جو حسبِ معاہدہ بنتا ہے ادا کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن وہ اس کاروبار کے  گڈول (Goodwill) کے عوض بھی رقم کا مطالبہ کر رہاہے، جب کہ ہماری معلومات کے مطابق اسلام میں  گڈول (Goodwill) کے عوض رقم لینے کی اجازت نہیں ہے، اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ شریعت کے مطابق ہماری راہ نمائی فرمائیں کہ آیا مذکورہ پارٹنر کا ہم سے  گڈول (Goodwill) کے عوض رقم کا مطالبہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ گڈول (Goodwill)  کوئی ایسی مالی  چیز نہیں ہے کہ  جس کا خارج میں کوئی وجود ہو اور اس کی قیمت لگائی جائے، بلکہ یہ ایک  حیثیتِ عرفیہ  ہے یا نیک نامی ہے،اس لیے آپ کے پارٹنر کا آپ سے شراکت داری کے  کاروبار سے الگ ہونے کی صورت میں   گڈول (Goodwill)  کے عوض رقم کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے۔

فتاوٰی محمودیہ میں ہے:

"گڈول" یعنی "نام" درحقیقت مال نہیں،  بلکہ بمنزلہ حیثیتِ عرفیہ کی ہے، جس کی کوئی قیمت نہیں، قانون نے اس کو جوکچھ حیثیت دی ہے، وہ شریعت کی رو سے فتویٰ لے کر نہیں دی ہے، اس لیے یہ باہمی رضامندی سے معاملہ طے کرلیاجائے، جوبھائی حکمِ شرع کی قدر کرتے ہوئے عمل کرے گا ان شاء اللہ نقصان میں نہیں رہے گا، ایثار سے کام لینا دنیا وآخرت میں بہت زیادہ عزت ومنفعت کا ذریعہ ہے۔"

( کتاب البیوع، باب بیع الحقوق المجردۃ، 178/16، ط: ادارۃ الفاروق)

امدادالاحکام میں ہے :

" محض اس قانون کے مشہور ہونے سے قرض خواہوں کا حق عنداللہ ساقط نہ ہوگا اور حقوق گڈول کی تنہا قیمت کچھ نہیں۔ ہاں یہ درست ہے کہ حقوق گڈول کی وجہ سے مجموعی دوکان کی قیمت زیادہ شمار کی جائے، مگر چوں کہ تنہا یہ حقوق شرعاً  قیمتی نہیں؛ اس لیے یہ جائز نہیں کہ ایک شریک کو صرف حقوقِ گڈول کی وجہ سے ایک لاکھ کا شریک مانا جائے، بلکہ اس کی طرف تھوڑا بہت مال بھی ہو جس کی قیمت حقوق گڈول کی وجہ سے زیادہ شمار کی جائے۔"

(کتاب البیوع، باب الحقوق، 453/4، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فتاوٰی شامی میں ہے :

"وفي الأشباه لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة وعلى هذا لا يجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف.قال ابن عابدين: مطلب: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة (قوله: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك ولا يجوز الصلح عنها. أقول: وكذا لا تضمن بالإتلاف قال: في شرح الزيادات للسرخسي وإتلاف مجرد الحق لا يوجب الضمان؛ لأن الاعتياض عن مجرد الحق باطل إلا إذا فوت حقا مؤكدا، فإنه يلحق بتفويت حقيقة الملك في حق الضمان كحق المرتهن."

(كتاب البيوع،  مطلب: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة ، 418/4، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100891

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں