بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

good morning, good night اور جمعہ مبارک کہنے کا حکم


سوال

ایک ٹرینڈ چلا هے کہ زیادہ تر لوگ صبح کے وقت "صبح بخیر" یا "گڈ مارننگ (good morning)" کہتے ہیں یا پھر میسج میں لکھ کر بھیجتے ہیں، اسی طرح جمعہ مبارک کے میسیج بھیجتے ہیں یا کہتے بھی ہیں، اس کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟  اگر کسی نے اس طرح کہا ہو یا کیاہو تو اس کا ازالہ کیا ہو سکتا ہے؟  

جواب

واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نےمسلمانوں کو  میل جول کے وقت سب سے پہلے سلام کرنےاور اسے عام کرنے  کی ترغیب دی ہے،  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "گفتگو سے پہلے سلام کرنا چاہیے،" اور ایک اور روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سلام کو عام کرو" اور اسی طرح ایک روایت میں حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک شخص نے سرکار دوعالمﷺ سے دریافت کیا : اہلِ اسلام کی کون سی خصلت بہتر ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: کھانا کھلانا اور ہر شناسا وناشناسا کو سلام کرنا۔

لہٰذا مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ میل جول کے وقت آپس میں سلام کو رواج دینا چاہیے، البتہ اس کے ساتھ ساتھ مختلف زبانوں میں جو دعائیہ کلمات ہیں جیسے صباح الخیر، شب بخیر، جن کو انگریزی میں good morning اور  good night کہا جاتا ہے، اس طرح کے کلمات استعمال کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے، لیکن ابتداء سلام سے کرنی چاہیے۔

اور "جمعہ مبارک " کا مطلب یہ ہے کہ جمعہ کا دن آپ کے لیے خیر و برکت کا باعث بنے، تو یہ   جمعہ کے دن کے بابرکت ہونے کی دعا ہے، جس میں  بذاتِ خود شرعاً  کوئی حرج نہیں ہے،البتہ اسے لازم اور ضروری نہ سمجھا جائے۔

سنن ترمذی میں ہے:

"حدثنا الفضل بن الصباح قال: حدثنا سعيد بن زكريا، عن عنبسة بن عبد الرحمن، عن محمد بن زاذان، عن محمد بن المنكدر، عن جابر بن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌السلام ‌قبل ‌الكلام»."

(أبواب العلم، ج:3 ص:356، ط:دار الغرب الإسلامي)

صحیح مسلم میں ہے:

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَوَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ؟ ‌أَفْشُوا ‌السَّلَامَ ‌بَيْنَكُمْ»."

(كتاب الايمان، ج:1، ص:74، ط:دار إحياء التراث العربي)

وفيه أيضا:

"عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‌أَيُّ ‌الْإِسْلَامِ ‌خَيْرٌ؟ قَالَ: «تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ، وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ»."

(كتاب الايمان، ج:1، ص:65، ط:دار إحياء التراث العربي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407101318

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں