بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گود لی ہوئی بچی کو اپنی ولدیت دینا جائز نہیں


سوال

میں نے اپنے بھائی سے بچی گود لی  ہے، اب اس کا نام میں اپنے نام سے درج کروانا چاہتا ہوں، کیا اسلام میں کوئی گنجائش ہے کہ بچی کی ولدیت اپنے نام سے لکھوا سکوں؟  براۓ مہربانی راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ  مطہرہ  میں لے پالک اور منہ بولی اولاد کی حیثیت حقیقی اولاد  کی طرح نہیں ہے،  اور کسی کو منہ بولا بیٹا یا بیٹی بنانے سے وہ حقیقی بیٹا  یا بیٹی نہیں بن جاتے اور نہ ہی ان پر حقیقی اولاد  والے اَحکام  (مثلاً ان کا نام اپنی طرف منسوب کرنا، ان سے شرعی پردے کا نہ ہونا، میراث میں ان کو حصہ ملنا وغیرہ) جاری ہوتے ہیں،  البتہ گود  لینے  والے کو   بچے کی  پرورش، تعلیم و تربیت  اور اسے ادب و اخلاق  سکھانے کا ثواب ملتا ہے،  جاہلیت کے زمانے  میں یہ دستور تھا کہ لوگ لے پالک اولاد کو حقیقی اولاد کا درجہ دیتے تھے ، لیکن اسلام نے اس تصور  و رواج کو ختم کرکے یہ اعلان کردیا کہ منہ بولی اولاد حقیقی اولاد نہیں ہوسکتی۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ کا اپنی لے پالک (منہ بولی) بیٹی کے کاغذات میں ولدیت کے خانے میں اُس  کے حقیقی والد کی جگہ اپنا نام لکھوانا درست نہیں ہے؛ کیوں کہ لے پالک بچے کو حقیقی والد کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرنا  جائز نہیں ہے، تاہم آپ سرپرست (Guardian) کی جگہ  اپنا نام لکھواسکتے ہیں۔

قرآن مجید میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

"{وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا اٰبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا }."

[سورۃ الأحزاب: ٤، ٥]

ترجمہ:  "اور  تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا  (سچ مچ کا) بیٹا نہیں بنادیا،  یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے ، تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو، یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے، اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں، اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجاوے تو اس سے تم پر کچھ گناہ نہ ہوگا، لیکن ہاں دل سے ارادہ کر کے کرو (تو اس پر مؤاخذہ ہوگا)، اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔"  (از بیان القرآن)

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"وقوله تعالى: {‌وما ‌جعل ‌أدعياءكم ‌أبناءكم} قيل: إنه نزل في زيد بن حارثة وكان النبي صلى الله عليه وسلم قد تبناه، فكان يقال له: زيد بن محمد وروي ذلك عن مجاهد وقتادة وغيرهما قال أبو بكر: هذا يوجب نسخ السنة بالقرآن؛ لأن الحكم الأول كان ثابتا بغير القرآن ونسخه بالقرآن.

وقوله تعالى: {ذلكم قولكم بأفواهكم} يعني أنه لا حكم له وإنما هو قول لا معنى له ولا حقيقة.

وقوله تعالى: {ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله فإن لم تعلموا آباءهم فإخوانكم في الدين ومواليكم} فيه إباحة إطلاق اسم الأخوة وحظر إطلاق اسم الأبوة من غير جهة النسب؛ ولذلك قال أصحابنا فيمن قال لعبده: هو أخي: لم يعتق إذا قال: لم أرد به الأخوة من النسب؛ لأن ذلك يطلق في الدين، ولو قال: هو ابني عتق؛ لأن إطلاقه ممنوع إلا من جهة النسب. وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام".

وقوله تعالى: {وليس عليكم جناح فيما أخطأتم به} روى ابن أبي نجيح عن مجاهد: {وليس عليكم جناح فيما أخطأتم به} قال: "قيل: هذا النهي في هذا أو في غيره"،  {ولكن ما تعمدت قلوبكم} "والعمد ما آثرته بعد البيان في النهي في هذا أو في غيره"،  وحدثنا عبد الله بن محمد بن إسحاق قال: حدثنا الحسن بن أبي الربيع الجرجاني قال: أخبرنا عبد الرزاق قال: أخبرنا معمر عن قتادة في قوله تعالى: {وليس عليكم جناح فيما أخطأتم به} قال قتادة: "لو دعوت رجلا لغير أبيه وأنت ترى أنه أبوه ليس عليك بأس".  وسمع عمر بن الخطاب رجلا وهو يقول: اللهم اغفر لي خطاياي، فقال: "استغفر الله في العمد فأما الخطأ فقد تجوز عنك"؛  قال: وكان يقول: "ما أخاف عليكم الخطأ ولكني أخاف عليكم العمد، وما أخاف عليكم المقاتلة ولكني أخاف عليكم التكاثر، وما أخاف عليكم أن تزدروا أعمالكم ولكني أخاف عليكم أن تستكثروها"."

(من سورة النور، ٣/ ٤٦٤، ط: دار الكتب العلمية)

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"لا يجوز انتساب الشخص إلى غير أبيه، ‌وعد ‌ذلك بعضهم من الكبائر لما أخرج الشيخان، وأبو داود عن سعد بن أبي وقاص أن النبي صلّى الله تعالى عليه وسلم قال: من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام۔ وأخرج الشيخان أيضا من ادعى إلى غير أبيه أو انتمى إلى غير مواليه فعليه لعنة الله تعالى والملائكة والناس أجمعين لا يقبل الله تعالى منه صرفا ولا عدلا۔ وأخرجا أيضا ليس من رجل ادعى لغير أبيه وهو يعلم إلّا كفر."

(‌‌سورة الأحزاب: ١١/ ١٤٧، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508101445

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں