بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گولی مانے کی دھمکی دے کر طلاق کے کاغذ پر دستخط کروانے سے طلاق کا حکم


سوال

میرے بھائی نے  مجھے بتائے بغیر میری طرف سے ایک کا غذ پر میری بیوی کو تین طلاقیں لکھیں، الفاظ یہ تھے کہ "میں اس کو طلاق دے رہا ہوں طلاق طلاق طلاق"، پھر مجھے بلایا اور کہا کہ اس پر سائن کرو اور کہا کہ اگر تو سائن نہیں کرے گا تو میں تجھے نہیں چھوڑوں گا اور تجھے گولی مار دوں گا، تو میں نے اس وقت سائن کر دیے، مجھے معلوم نہیں تھا کہ کاغذ پر  کیا لکھا ہے، البتہ یہ معلوم تھا کہ یہ  طلاق کے کاغذات ہیں، میں نے اپنی رضامندی سے اس پر دستخط نہیں کیے، زبان سے میں نے طلاق کے الفاظ نہیں بولے  تھے اور نہ میں طلاق پر راضی تھا، دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا اس طرح میری بیوی پر طلاق ہو چکی ہے یا نہیں ہوئی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل کے بھائی نے تین طلاق لکھے ہوئے کاغذ پر زبردستی دستخط کرواتے ہوئے  سائل سے یہ کہا کہ "اگر تو سائن نہیں کرے گا تو میں تجھے نہیں چھوڑوں گا اور تجھے گولی مار دوں گا" تو اس وقت اگر سائل کا بھائی گولی مارنے پر قادر تھا اور سائل کوبھی اس بات کا یقین یا  غالب گمان ہو گیا تھا کہ اگر اس نے دستخط نہ کیے تو یہ اسے گولی مار دے گا تو مجبوری کی اس حالت میں طلاق  نامے پر دستخط کرنے سے سائل کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

اور اگریہ صورت نہیں تھی یعنی سائل کا بھائی گولی مارنے پر قادر نہیں تھا یا سائل کو اس بات کایقین یا  غالب گمان  نہیں ہوا تھا کہ یہ گولی مار دے گا اور اس کے باوجود سائل نے اس کاغذ پر دستخط کر دیے اور سائل کو یہ تو  معلوم تھا کہ اس کاغذ پر طلاق لکھی ہوئی ہے، لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ کتنی طلاقیں لکھی ہوئی  ہیں  تو دستخط  کرنے سے سائل کی بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہو گئی،   طلاقِ رجعی کے بعد سائل کو عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک) کے دوران  رجوع کا حق حاصل ہے، اگر عدت کے دوران سائل نے رجوع کر لیا تو دونوں کا نکاح قائم رہے گا اور پھر سائل کے پاس  دوطلاق کا اختیار باقی رہے گااور اگر عدت کے دوران رجوع نہیں کیا تو عدت مکمل ہوتے ہی سائل کا اپنی بیوی کے ساتھ کا رشتہ ختم ہو جائےگا۔

اگر اس کے بعد دوبارہ دونوں  ساتھ رہنا چاہیں تو از سرِ نو شرعی گواہوان کی موجودگی میں   نئے مہر کے ساتھ ایجاب و قبول کر کے دوبارہ نکاح کرنا ہوگاایسی صورت میں بھی سائل کے پاس نکاح کے بعد دو طلاقوں کا اختیار باقی رہے گا۔

کفایت المفتی میں ہے:

"ناجائز دباؤ سے مراد اگر یہ ہے کہ اس کو مارنے یا بند رکھنے کی دھمکی دی تھی اور دھمکی دینے والے اس پر قادر بھی تھے تو اس کے دستخط کردینے سے طلاق نہیں ہوئی بشرطیکہ اس کے ذہن میں یہ بات آگئی ہو کہ اگر میں نے دستخط نہیں کیے تو یہ مجھے ضرور ماریں گے  یا بند رکھیں گے لیکن اگر یہ حالت نہ تھی اور پھر بھی اس نے دستخط کر دیے تو اگر یہ دستخط کرنے کا اقرار کرتا ہو کہ باوجود اس علم کےکہ اس میں طلاق لکھی ہوئی ہے پھر بھی میں نے دستخط کیے ہیں تو طلاق واقع ہو جائے گی"۔

(کتاب الطلاق، چھٹی فصل: کتابتِ طلاق، ج:6،ص:67، ط : دار الاشاعت)

فتاوی  قاضی خان میں ہے:

"رجل أكره بالضرب والحبس على أن يكتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان ابن فلان فكتب امرأته فلانة بنت فلان ابن فلان طالق لا تطلق امرأته لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا".

(‌‌كتاب الطلاق، فصل في الطلاق بالكتابة، 1/416، ط: دار الكتب علمية)

البحر الرائق  میں ہے:

"قوله: (ولو مكرها) أي ولو كان الزوج مكرها على إنشاء الطلاق لفظا...

وقيدنا بكونه على النطق لأنه لو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا كذا في الخانية، وفي البزازية أكره على طلاقها فكتب فلانة بنت فلان طالق لم يقع".

(كتاب الطلاق، 3/ 264 ط: دارالكتاب الإسلامي)

بدائع الصنائع میں ہے:

"أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت".

(كتاب الطلاق، فصل:وأما بيان حكم الطلاق، 3/ 180، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307101907

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں