بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گولڈن پونکس کے نام سے آن لائن کاروبار کرنے کا حکم


سوال

گولڈن پونکس کے نام سے ایک آن لائن کاروبار ہے، جس کا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے آپ کو اپنے اکاؤنٹ میں کیش کو ڈالر کے ساتھ تبدیل کرنا ہوگا، پھر آپ کو اس کمپنی کے ساتھ جڑنا ہوگا، کمپنی آپ کے ڈالر کےمطابق سامان دے گی، اس سامان کو صرف کلک کرنا ہوتا ہے، اس بناء پر سامان کی قیمت کے اعتبار سے ان کا مقرر کردہ نفع ملتا ہے، اور اپنے پیسے بھی کم نہیں ہوتے، کبھی کبھار اس میں مہنگا سامان بھی آجاتا ہے، جس کی قیمت اگر اکاؤنٹ میں کافی نہ ہو (یعنی اگر اکاؤنٹ میں کیش کم ہو) تو اکاؤنٹ میں مزید رقم ڈالنی ہوگی، کمپنی کی طرف سے مقرر کردہ قوانین میں سے ایک یہ ہے کہ جب آپ کمپنی میں شامل ہو کر کام کرتے ہیں، تو آپ کے لیے 40 اشیاء درآمد کرنا ضروری ہیں، جب تک کہ 40 تک نہ پہنچ جائیں منافع نہیں نکال سکتا، بلکہ اپنے ڈالرز بھی نہیں نکال سکتے، ایسا ہی پیسہ لٹک رہا ہے، اگر اسے ایک بار کرتے ہیں، تو 40 اشیاء درآمد کرنا ضروری ہے، دن میں جتنی مرتبہ چاہیں کام کر سکتے ہیں، اگر آپ کے پاس زیادہ سرمایہ ہے، تو آپ کو زیادہ منافع ملے گا، اصل پوچھنایہ ہے کہ کیا اس کاروبار میں شامل ہونا جائز ہے، اور کیا کمپنی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ یہ اصول طے کرے کہ 40 بار مکمل کرنے کے بعد ہی رقم نکالنے کی اجازت ہے، براہ کرم جلد از جلد جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سوال میں ذکر کردہ  تفصیل کے مطابق مذکورہ کمپنی کا  کاروبار  چند خرابیوں کے وجہ سے  درست نہیں،جو کہ درجہ ذیل ہیں:

1:پہلی خرابی یہ ہے  کہ سامان پر قبضہ  نہیں پایا جاتا،اور منقولی اشیا ءمیں خریدنے کے بعد آگے فروخت کرنے کے لیے قبضہ کرنا ضروری ہے،اور یہاں صرف کلک کرنا پڑتا ہے۔

2:اور دوسری خرابی یہ ہے کہ   چالیس  اشیاء درآمد کرنا ضروری   ہیں،اور یہ شرط  لگانادرست نہیں۔

فتح القدیر میں ہے:

"ومن اشترى شيئًا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه لأنه عليه الصلاة والسلام نهى عن بيع ما لم يقبض."

(کتاب البیوع، باب المرابحة والتولية، فصل اشترى شيئا مما ينقل ويحول، ج:6، ص:510،511، ط: دار الفكر)

تبين الحقائق  میں ہے:

 "لايجوز بيع المنقول قبل القبض؛ لما روينا ولقوله عليه الصلاة والسلام: «إذا ابتعت طعامًا فلاتبعه حتى تستوفيه» رواه مسلم وأحمد ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك قبل القبض؛ لأنه إذا هلك المبيع قبل القبض ينفسخ العقد فيتبين أنه باع ما لا يملك والغرر حرام لما روينا."

( کتاب البیوع، باب التولیة، فصل بيع العقار قبل قبضه، ج:4، ص: 80، ط: المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة) 

فتح القدیر میں ہے:

"وكل شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين أو للمعقود عليه وهو من أهل الاستحقاق يفسده كشرط أن لا يبيع المشتري العبد المبيع لأن فيه زيادة عارية عن العوض فيؤدي إلى الربا أو لأنه يقع بسببه المنازعة فيعري العقد عن مقصوده."

(کتاب البیوع، باب البيع الفاسد، ج:6، ص:442، ط: دار الفكر)

البحر الرائق میں ہے:

"قال رحمه الله (يفسد الإجارة الشرط) قال في المحيط كل جهالة تفسد البيع تفسد الإجارة؛ لأن الجهالة المتمكنة في البدل أو المبدل تفضي إلى المنازعة، وكل شرط لا يقتضيه ‌العقد ‌وفيه ‌منفعة لأحد المتعاقدين يفضي إلى المنازعة فيفسد الإجارة."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ج:8، ص:19، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144507100141

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں