بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گوگل سےکسی کےڈیزائن کوکاپی کرنےکاحکم


سوال

میں گرافک ڈیزائنر ہوں ، لوگو ڈیزائن اور دیگر ڈیزائن  کے لئے گوگل يا مختلف ویب سائٹس سے ڈیزائن کو یا تو مکمل کاپی کرلیتی ہوں ،یا اس ڈیزائن کا کچھ حصہ یا کاپی کرکے اس میں کچھ تبدیلی کر لیتی ہوں، بغیر یہ جانے کے جو ڈیزائن میں اٹھارہی ہوں ،اس کے بنانے والے نے اس کو استعمال کی اجازت دی ہے کہ نہیں، تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اور اس سے حاصل ہونے والی کمائی حلال ہے؟ ساتھ یہ بھی واضح کردیں کہ :اگر یہ کمائی حرام ہے، تو اب تک جتنی کمائی اس طرح لا علمی میں ہوگئی ،وہ میرے لئے حلال ہے؟ یا اس کی تلافی کرنے پڑےگی؟ کیوں کہ اس میں سے کچھ خرچ کرلیاہے،اور کچھ سے زیور لے لیا ہے، اور کچھ ڈالر کی صورت میں موجود ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگرسائلہ کسی کےذاتی پاسورڈوغیرہ کوناجائزطریقہ سےحاصل کرکے،اس کےذریعہ سےڈیزائن کاپی کرکےکمائے،تو یہ عمل دھوکہ دہی اورخلافِ قانون ہونےکی وجہ سےناجائزہے،البتہ اس سےحاصل شدہ آمدنی استعمال کرنےکی گنجائش ہے،لیکن اگرکسی نےبالکل عام ویب سائٹس وغیرہ پراپنےڈیزائن دیئےہوں،یااُن کی طرف سےصراحۃً کوئی ممانعت نہ ہو،توایسےگرافک ڈیزائن کوکاپی کرنےمیں کوئی حرج نہیں ہے۔

نوٹ:واضح رہےکہ کسی جاندارکی تصویربنانایااس کوکسی بھی طریقہ سےذریعۂ معاش بناناحرام ہے۔

اللہ تعالی کافرمان ہے:

﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا﴾

(سورة النساء ،188)

مجلۃ الاحکام  العدلیة میں ہے:

"کل یتصرف في ملکه کیفما شاء، لکن إذا تعلق حق الغیر به فیمنع المالك من تصرفه علی وجه الاستقلال."

(الباب الثالث، الفصل الأول في بيان بعض قواعد أحكام الأملاك، ج:1،ص:230، ط:نور محمد كتب خانه)

 حاشيةابن عابدين میں ہے:

"وفي شرح الجواهر: تجب إطاعته فيما أباحه الشرع، وهو ما يعود نفعه على العامة."

(كتاب الاشربة،6/460، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100684

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں