بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گود لیے ہوئے بچے کی ولدیت کے خانے میں اپنا نام لکھوانے کا حکم


سوال

میں نے اپنی سالی کا لڑکا گود لیا ہے،اس کے باپ نے مجھے اجازت دی ہے کہ ولدیت کے خانے میں،میں اپنانام لکھوالوں،کیوں کہ اس کی ماں کا شناختی کارڈ بھی نہیں بنا ہوا،اور مجھے اس بچے کو باہر لے کر جانا ہے،اور اس کا وہاں اسکول میں داخلہ وغیرہ کروانا ہے،مجھے معلوم ہے کہ یہ شرعاًجائز نہیں ہے،لیکن اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ میری اس پریشانی کا کوئی حل نکل آئے اور آگے کے لیے پریشانی نہ ہو؟

جواب

واضح رہے کہ کسی معروف النسب بچہ کی نسبت اس کے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف کرنا نہ صرف ناجائز ہے بلکہ گناہِ کبیرہ ہے،مزید یہ کہ احادیث میں اس پر  جنت سے محرومی تک کی  وعید وارد ہوئی ہے،لہذا سائل کے لیے اپنی سالی کے بچے کی ولدیت کے خانے میں اپنا نام لکھوانا جائز نہیں ہے،اگرواقعی اس کو بچے کے داخلے وغیرہ میں کچھ مشکلات کا سامنا ہے،تو  ولدیت کے خانے میں باپ کا نام لکھوانے کے بعد،سرپرست کے خانے میں سائل اپنا نام لکھواسکتا ہے۔

"عمدۃ القاری"میں ہے:

"عن أبي عثمان عن سعد رضي الله عنه، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام.

قوله: من ادعى: أي: من انتسب إلى غير أبيه، والحال يعلم أنه غير أبيه، وفي رواية مسلم: ‌من ‌ادعى ‌أبا في الإسلام غير أبيه، والباقي مثله. قوله: فالجنة عليه حرام: وفي الحديث الآتي: فقد كفر، يعني: إذا استحل لأن الجنة ما حرمت إلا على الكافرين، أو المراد: كفران النعمة وإنكار حق الله وحق أبيه أو هو للتغليظ."

(ص:262،ج:23،کتاب الفرائض،باب باب من ادعى إلى غير أبيه،ط:دار الفکر،بیروت)

"بذل المجهود"میں ہے:

"عن أبي هريرة، أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول حين نزلت آية المتلاعنين...وأيما رجل جحد ولده وهو ينظر إليه احتجب الله تعالى منه وفضحه على رؤوس الأولين والآخرين."

"وأيما رجل جحد ولده بأن نفاه وهو أي الولد ینظر إليه أي إلى الرجل، ففيه إشعار إلى قلة شفقته ورحمته وكثرة قساوة قلبه وغلظته، أو والحال أن الرجل ينظر إلى ولده وهو أظهر. وقيل: المعنى وهو ينظر إليه أي وهو يعلم أنه ولد احتجب الله تعالى منه أي حجبه وأبعده من رحمته جزاء وفاقا وفضحه أي: أخزاه على رؤوس الخلائق، أي: بمرئى منهم في الأولين والآخرين يوم القيامة."

(ص:314،ج:8،کتاب الطلاق،باب التغليظ في الانتفاء،ط:مرکز الدراسات الإسلامية،ہند)

"رد المحتار على الدر المختار"میں ہے:

"الإقرار بالولد الذي ليس منه حرام كالسكوت لاستلحاق نسب من ليس منه."

(ص:493،ج:3،کتاب الطلاق،باب اللعان،ط:ایج ایم سعید)

"ألموسوعة الفقهية الكويتية"میں ہے:

"وقد اتفق الفقهاء على أن حكم الاستلحاق عند الصدق واجب، ومع الكذب في ثبوته ونفيه حرام، ويعد من الكبائر، لأنه كفران النعمة."

(ص:84،ج:4،لفظ الإستلحاق  ،ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100920

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں