بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گندم کی پسائی کے بدلے بطور اجرت گندم لینا


سوال

میری آٹاپیسنے کی چکی ہے ، یہاں پر ہم ایک من گندم پیسنے کے دو کلو آٹا اور 120روپے لیتے ہیں اور اگر کوئی آٹا( کاٹ ) نہ دے تو 260 روپے لیتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر عام تصور ہے کہ کاٹ حرام ہے اور لوگ اسی طرح سے آٹا پسواتے ہیں بغیر کاٹ کے کچھ لوگ ہی پسواتے ہیں ، اب سوال یہ ہے کہ کاٹ حلال ہے یا حرام ؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر سائل کے ہاں اجرت  اس طرح  طے کی جاتی ہو جو  گندم میں پیسواؤں  گا اس میں سے دسواں حصہ یا بیسواں حصہ میں بطورِ اجرت(کاٹ) دوں گا ( جیسا کہ یہ صورت بہت سی جگہوں میں رائج بھی ہے) تو اس طرح کا معاہدہ کرنے سے یہ اجارہ فاسد ہوجائے گا، کیوں کہ پیسے جانے والی گندم میں سے دو کلو  بطورِ اجرت طے کرنا  یہ "قفیز طحان" کے حکم میں داخل ہے، جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، یعنی "اجرت من جنس العمل" ہونے  (یعنی اجیر کے عمل سے حاصل ہونے والی چیز کو ہی اجرت بنانے) کی وجہ سے یہ اجارہ فاسدہ ہے  اس لیے کہ جو چیز(یعنی آٹا) فی الحال موجود نہیں، بلکہ اجیر (مزدور) کے عمل سے حاصل ہوگی، اس ہی  کو اجیر کے لیے اجرت مقرر کرنا جائز نہیں ہے، لہذا سائل کا گندم پیس کر اسی پسی ہوئی گندم سے کچھ  مخصوص حصہ کاٹ کے طور پر لینا درست نہیں ہے ،البتہ اگر اجرت  شروع سے فی ’من‘ یا فی ’بوری‘ کے حساب سے طے کرلی، مثلاً ایک من گندم پیسنے پر ایک سیر یا دو سیر گندم بطور اجرت طے کرلی ، اور  یہ شرط نہ لگائی جائے کہ پیسی جانے والی گندم سے ہی مذکورہ اجرت دی جائے گی بلکہ کہیں سے بھی اتنی مقدار آٹا دے تو یہ جائز ہے  اگرچہ بعد میں اسی غلہ سے مزدوری دے دی جائے۔ یا یوں کیا جائے گندم پیسنے سے پہلے گندم سے اجرت کی گندم الگ کرلی جائے مثلا ایک من گندم ہو تو دو کلو گندم (مثلا) پہلے سے الگ کرلی جائے اور پھر پیسنے کے بعد وہ گندم چکی والے کو دے دی جائے ۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ولو) (دفع غزلاً لآخر لينسجه له بنصفه) أي بنصف الغزل (أو استأجر بغلاً ليحمل طعامه ببعضه أو ثوراً ليطحن بره ببعض دقيقه) فسدت في الكل؛ لأنه استأجره بجزء من عمله، والأصل في ذلك نهيه صلى الله عليه وسلم عن قفيز الطحان وقدمناه في بيع الوفاء. والحيلة أن يفرز الأجر أولاً أو يسمي قفيزاً بلا تعيين ثم يعطيه قفيزاً منه فيجوز.

(قوله: والحيلة أن يفرز الأجر أولاً) أي ويسلمه إلى الأجير، فلو خلطه بعد وطحن الكل ثم أفرز الأجرة ورد الباقي جاز، ولا يكون في معنى قفيز الطحان إذ لم يستأجره أن يطحن بجزء منه أو بقفيز منه كما في المنح عن جواهر الفتاوى. قال الرملي: وبه علم بالأولى جواز ما يفعل في ديارنا من أخذ الأجرة من الحنطة والدراهم معاً، ولا شك في جوازه اهـ. (قوله: بلا تعيين) أي من غير أن يشترط أنه من المحمول أو من المطحون فيجب في ذمة المستأجر، زيلعي."

(کتاب الاجارۃ، باب الاجارۃ الفاسدۃ، 6/ 52 ، ط:سعید)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"صورة قفيز الطحان أن يستأجر الرجل من آخر ثوراً ليطحن به الحنطة على أن يكون لصاحبها قفيز من دقيقها أو يستأجر إنساناً ليطحن له الحنطة بنصف دقيقها أو ثلثه أو ما أشبه ذلك فذلك فاسد، والحيلة في ذلك لمن أراد الجواز أن يشترط صاحب الحنطة قفيزاً من الدقيق الجيد ولم يقل من هذه الحنطة، أو يشترط ربع هذه الحنطة من الدقيق الجيد؛ لأن الدقيق إذا لم يكن مضافاً إلى حنطة بعينها يجب في الذمة والأجر كما يجوز أن يكون مشاراً إليه يجوز أن يكون ديناً في الذمة، ثم إذا جاز يجوز أن يعطيه ربع دقيق هذه الحنطة إن شاء. كذا في المحيط."

(کتاب الاجارۃ، الباب الخامس عشر فی بیان ما یجوز من الاجارۃ و ما لا یجوز،ج:4 / 444،ط:رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101663

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں