بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ذو القعدة 1445ھ 15 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گیارہ سال سے لاپتہ شوہر کی بیوی کے لئے نکاح ثانی کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام کہ میرے شوہر گیارہ  سال سے لاپتہ ہیں، میرے دو بیٹے ہیں اور میں اب شادی کرنا چاہتی ہوں ، ہر جگہ تلاش کرنے کے بعد مجھے ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی ہے ۔کیا اس صورت میں مجھے دوسری شادی کرنے کی اجازت ہے ؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر واقعۃ سائلہ کا بیان درست ہے کہ اس کا شوہر گیارہ سال سے لاپتہ ہے ، اس کے زندہ یا مردہ ہونے کی کوئی خبر نہیں ہے ، تو ایسی صورت میں اپنے شوہر کے نکاح سے آزاد ہونے اور نکاح کو ختم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سائلہ کسی مسلمان جج کی  عدالت میں  شوہر کے مفقود الخبر ہونے کی بنیاد پر فسخ نکاح کا مقدمہ دائر کرے، جس میں اولاً گواہوں سے مفقود کیساتھ تاحال قیام نکاح کو ثابت کرے ، نیز نکاح کے اصلی شاہد ضروری نہیں ہے ، بلکہ شہادت بالتسامع کافی ہے یعنی نکاح کی عام شہرت سن کر گواہی دی جاسکتی ہے ، اس کے بعد شوہر کے مفقود ہونے کی شہادت شرعیہ پیش کرے ،بعد ازاں عدالت اپنے طور پر شوہر کی تلاش کے لئے تحقیق کرے گی ، جہاں تک ممکن ہوتلاش کیا جائے ، جس جگہ اس کے موجود گی کا ظن غالب ہو  وہاں آدمی بھیجے ، اور جہاں احتمال ہو خط وغیرہ سے تحقیق کرے   اخبارات وغیرہ میں اشتہار کے ذریعےبھی  اس کی تلاش کی کوشش کی جائے گی  ،اورحاکم وقت یا عدالت  شوہر کی تلاش سے عاجز آجائے تو بیوی کے لئے  چار سال کی یا کم از کم ایک ماہ  انتظار کی مدت مقرر کرے، اور وقت معین گزرنے   پر بھی شوہر نہ آئے اور نہ ہی اس کے بارے میں کوئی خبر آئے تو  عدالت فسخِ نکاح کا فیصلہ کردے، عدالت کے فیصلے کے بعد عدتِ وفات  گزارنے کے بعد دوسرا نکاح کرسکتی ہے ۔اور اگر نان نفقہ کا انتظام نہ ہو تو کم از کم ایک ماہ کی مدت کے انتظار کے بعد بھی عدالت فسخ نکاح کرسکتی ہے ۔

اور اگر دوسری شادی کے بعد پہلا شوہر لوٹ آئے تو مذکورہ خاتون کا نکاح اس کے  پہلے شوہر سے بدستور قائم رہےگا، دوسرے شوہر کے ساتھ اس کا نکاح خود بخود باطل ہو جائے گا؛  اس لیے دوسرے شوہر سے فوراً علیٰحدگی لازم ہوگی۔ اور اگر اس خاتون کی دوسرے نکاح کی رخصتی بھی ہو گئی ہو تو  پہلے شوہر کو اس کے ساتھ صحبت کرنا اس وقت تک جائز نہیں ہوگا جب تک وہ دوسرے شوہر کی عدت پوری نہ کرلے۔

 فتاوی شامی میں ہے :

"[كتاب ‌المفقود](هو) لغة المعدوم. وشرعا (غائب لم يدر أحي هو فيتوقع) قدومه (أم ميت أودع اللحد البلقع) أي القفر".

(کتاب المفقود ، ج:4،ص:292،ط:ایچ ایم سعید)

(مطلب في الإفتاء بمذهب مالك في زوجة المفقود)

"(قوله: خلافا لمالك) فإن عنده تعتد زوجة المفقود عدة الوفاة بعد مضي أربع سنين، وهو مذهب الشافعي القديم وأما الميراث فمذهبهما كمذهبنا في التقدير بتسعين سنة، أو الرجوع إلى رأي الحاكم. وعند أحمد إن كان يغلب على حاله الهلاك كمن فقد بين الصفين أو في مركب قد انكسر أو خرج لحاجة قريبة فلم يرجع ولم يعلم خبره فهذا بعد أربع سنين يقسم ماله وتعتد زوجته، بخلاف ما إذا لم يغلب عليه الهلاك كالمسافر لتجارة أو لسياحة فإنه يفوض للحاكم في رواية عنه، وفي أخرى يقدر بتسعين من مولده كما في شرح ابن الشحنة، لكنه اعترض على الناظم بأنه لا حاجة للحنفي إلى ذلك أي؛ لأن ذلك خلاف مذهبنا فحذفه أولى. وقال في الدر المنتقى: ليس بأولى، لقول القهستاني: لو أفتى به في موضع الضرورة لا بأس به على ما أظن."

( کتاب المفقود ، ج:4،ص:295،ط:ایچ ایم سعید)

 "(ولو قضى على الغائب بلا نائب ينفذ) في أظهر الروايتين عن أصحابنا."

"قلت: ويؤيده ما يأتي قريبا في المسخر، وكذا ما في الفتح من باب المفقود لا يجوز القضاء على الغائب إلا إذا رأى القاضي مصلحة في الحكم له وعليه فحكم فإنه ينفذ؛ لأنه مجتهد فيه اهـ.

قلت: وظاهره ولو كان القاضي حنفيا ولو في زماننا ولا ينافي ما مر؛ لأن تجويز هذاللمصلحة والضرورة"۔

(الدر المختار مع رد المحتار ،مطلب فی قضاء القاضی بغیر مذہبہ ،ج:5،ص:414، ط:ایچ ایم سعید)

مبسوط سرخسی میں ہے :

"وأما تخييره إياه بين أن يردها عليه وبين المهر فهو بناء على مذهب عمر - رضي الله عنه - في المرأة إذا نعي إليها زوجها فاعتدت، وتزوجت ثم أتى الزوج الأول حيا إنه يخير بين أن ترد عليه وبين المهر، وقد صح رجوعه عنه إلى قول علي - رضي الله عنه -، فإنه كان يقول ‌ترد ‌إلى ‌زوجها ‌الأول، ‌ويفرق ‌بينها ‌وبين ‌الآخر، ولها المهر بما استحل من فرجها، ولا يقربها الأول حتى تنقضي عدتها من الآخر وبهذا كان يأخذ إبراهيم - رحمه الله - فيقول: قول علي - رضي الله عنه - أحب إلي من قول عمر - رضي الله عنه -، وبه نأخذ أيضا؛ لأنه تبين أنها تزوجت، وهي منكوحة ومنكوحة الغير ليست من المحللات بل هي من المحرمات في حق سائر الناس".

(المبسوط للسرخسی ،ج:11،ص:37،دارالمعرفۃ بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100749

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں