بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گروی رکھے گئے زیورات پر زکات کاحکم


سوال

 ہماری بہن نے اپنے زیورات سنار کے پاس گروی رکھے تھے، جس پر ہر مہینے بیاج چڑھ رہا تھا، ہماری امی نے سنار سے وہ زیور پیسے دیکر چھڑا لیےتا کہ بیاج نہ دینا پڑے، اور بہن سے کہہ دیا کہ جب وہ زیور کے پیسے  دے گی تو اس کو اُس کا زیور دے دوں گی، اور امی کے پاس وہ زیور تقریباً ایک سال سے ہے، اب مسئلہ یہ ہے کہ اس زیور پر زکات واجب ہےیا نہیں؟اگرزکات واجب ہے تو زکات اداکون کرے گا؟

جواب

واضح رہےکہ گروی رکھے ہوئے زیوارت کی زکات نہ تو راہن(گروی رکھوانے والے )کے ذمے ہے،اور نہ ہی مرتہن(جس شخص کے پاس گروی رکھوائی گئی ہو)کے ذمے ہے، کیوں کہ زکاۃ  کے وجوب کے لیے مالِ زکاۃ  کی ملکیت اور اس مال پر قبضہ دونوں  حاصل ہونا شرط ہے، جب کہ راہن (گروی رکھوانے والے) کو  گروی رکھے ہوئے زیورات پر قبضہ اور تصرف کا اختیار حاصل نہیں ہوتا،  اور مرتہن (جس کے پاس زیور گروی رکھاہو) کو گروی کے زیورات کی ملکیت حاصل نہیں ہوتی۔

لہذا مذکورہ صورت میں زیوارت کی زکات نہ ہی والدہ پر ہے اور نہ ہی بہن پر ہے،کیوں کہ بہن کو زیورات پر قبضہ اور تصرف کااختیار حاصل نہیں ہے،البتہ جب گروی رکھے ہوئے زیورات اس کے قبضہ اور تصرف میں آجائیں اور اس پر سال بھی گذرجائے تو اس وقت زکات کی ادائیگی لازم ہوگی۔

"الفتاوى الهندية"میں ہے:

"ومنها الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد وأما إذا وجد الملك دون اليد كالصداق قبل القبض أو وجد اليد دون الملك كملك المكاتب والمديون لاتجب فيه الزكاة، كذا في السراج الوهاج ... ولا على الراهن إذا كان الرهن في يد المرتهن، هكذا في البحر الرائق".

(كتاب الزكاة، ج:1، ص:172، ط:رشيدية)

"ردالمحتار"میں ہے:

"ولا في مرهون بعد قبضه.

 (قوله: ولا في مرهون) أي لا على المرتهن؛ لعدم ملك الرقبة، ولا على الراهن؛ لعدم اليد، وإذا استرده الراهن لايزكي عن السنين الماضية، وهو معنى قول الشارح بعد قبضه، ويدل عليه قول البحر: ومن موانع الوجوب الرهن ح، وظاهره ولو كان الرهن أزيد من الدين ط".

(كتاب الزكاة، ج:2، ص:263، ط:سعيد)

"فتاوی حقانیہ "میں ہے:

"سوال:اگر ایک شخص کسی کے پاس کوئی چیز رہن(گروی)رکھے،تو اس زہن کی زکات کس پر واجب ہے؟

جواب:زکات میں ملکیت کاتام ہوناضروری ہے کہ وہ شخص اس مال کا کلی مالک ہو،چوں کہ رہن میں راہن کی ملکیت تام نہیں ہے،اس لیے کہ رہن اس کے ہاتھوں سے باہر ہے،اور نہ مرتہن کو ملکِ تام حاصل ہے،اس لیے کہ اس کو ملک رقبہ حاصل نہیں ہے،اس لیے رہن(گروی)مالیت کی زکات کسی پر واجب نہیں نہ راہن پر اور نہ مرتہن پر،تاہم جب رہن کسی ایک کاہوجائے تو زکات واجب ہوگی۔"

(ج:3، ص:508، ط:جامعہ دارالعلوم حقانیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101026

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں