بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گروی رکھی گئی چیز سے فائدہ حاصل کرنا


سوال

1-  راہن (مالک)  کی اجازت کے بغیر مرهون مکان کا استعمال کرنا اور بعد میں صرف توبہ کرنا کافی ہوگا یا کرایہ بھی دینا ہوگا؟

2-   راہن  (مالک)  کی  اجازت  سے  مرهون  مکان کو  دوسرے شخص کو کرایہ پر دیناکیسا ہے ؟کیا اس طرح کرنے  سے گروی باطل  ہوجائے گی ؟

3-  راہن  (مالک) کی اجازت سے مرهون مکان کو کرایہ پر لینا کیسا ہے ؟کیا اس طرح کرنے سے گروی باطل ہوجائے  گی ؟

جواب

1۔ ”رہن“  عربی لفظ  ہے،  اردو  زبان  میں  اسے ’’گروی‘‘کہتے ہیں۔ رہن کی شرعی تعریف یہ ہے کہ کسی مالی  شے کو  دَین (قرض) کے بدلے محبوس کرنا کہ اس سے یا اس کی قیمت سے بہ وقتِ تعذر اپنے دَین کی وصولی ممکن ہو۔ یعنی اگر کوئی شخص کسی سے قرض لے تو قرض دینے والا بطورِ ضمانت و وثیقہ قرض دار سے کوئی قیمتی چیز لے کر اپنے قبضے میں رکھتا ہے کہ اگر قرض دار قرض نہ ادا کرسکے تو اس قیمتی چیز سے قرض کی رقم کی ادائیگی کا انتظام کیا جاسکے۔

’’ اَلرَهنُ هو حَبسُ شيءٍ مالیٍ بِحَقٍ یُمکِنُ اِستِیفائُه مِنه کَالْدَّینِ “. (درمختار: ۵/ ۳۰۷)

’’رہن‘‘  کا  شرعی  حکم یہ  ہے کہ  ضرورت  کی  وجہ  سے کسی قرض کے  مقابلے میں ’’رہن‘‘ لینا اور دینا درست ہے، لیکن رہن میں رکھی جانے والی چیز  کی حیثیت محض ضمانت کی ہوتی ہے، اور رہن (گروی) رکھی ہوئی چیز  اس کے اصل مالک کی ہی ملک رہتی ہے؛ البتہ قبضہ مرتہن  (جس کے پاس گروی رکھی ہوئی ہے) کا ہوتا ہے۔  نیز اس میں پیدا ہونے والی زیادتی  بھی  مالک  کی  ملک قرار  پاتی ہے۔ اور  مرتہن  (جس کے پاس چیز گروی رکھی ہو) کے لیے شرعاً اس کے استعمال اور اس سے نفع  کمانے  کی اجازت نہیں ہوتی۔ اگر رہن میں رکھی ہوئی چیز کو مرتہن نے استعمال کرلیا تو اُس چیز سے نفع حاصل کرنا  سود کے زمرے میں آئے گا؛ کیوں کہ رہن قرض کے بدلے ہوتا ہے اور قرض دے کر مقروض سے نفع حاصل کرنا یہ سود ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے : 

’’ وَنَماءُ الْرَّهنِ کَالوَلَدِ وَالْثَّمَرِ وَالْلَّبَنِ وَالصُوفِ والوَبرِ وَالاَرْشِ وَنَحوِ ذٰلکَ لِلْرَّاهنِ لِتَوَلُّدِه مِنْ مِلْکِه ‘‘. (درمختار: ۵/ ۳۳۵)

’’ لاَ یَحِلُ لَه اَنْ یَنْتَفِعَ بِشَیٍٴ مِنه بِوَجْه مِنَ الْوُجُوه اِنْ اَذِنَ لَه الْرَّاهنُ لأنَّه أذِنَ لَه في الْرِبَوا ‘‘. (شامی:  ۵/ ۳۱۰)

’’ أنواع الربا: وأما الربا فهو علی ثلاثة أوجه:أحدها في القروض، والثاني في الدیون، والثالث في الرهون.

الربا في القروض: فأما في القروض فهو علی وجهین:أحدهما أن یقرض عشرة دراهم بأحد عشر درهماً أو باثني عشر ونحوها. والآخر أن یجر إلی نفسه منفعةً بذلک القرض، أو تجر إلیه وهو أن یبیعه المستقرض شيئا بأرخص مما یباع أو یوٴجره أو یهبه…، ولو لم یکن سبب ذلك (هذا ) القرض لما کان (ذلك) الفعل، فإن ذلك رباً، وعلی ذلک قول إبراهیم النخعي: کل دین جر منفعةً لا خیر فیه.‘‘

(النتف في الفتاوی ، ص: 484 ، 485)

حاشية رد المحتار على الدر المختار (5/ 166):

’’ لا يحل له أن ينتفع بشيء منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن؛ لأنه أذن له في الربا؛ لأنه يستوفي دينه كاملاً فتبقى له المنفعة فضلاً؛ فتكون رباً، وهذا أمر عظيم،قلت: وهذا مخالف لعامة المعتبرات من أنه يحل بالإذن إلا أن يحمل على الديانة وما في المعتبرات على الحكم.ثم رأيت في جواهر الفتاوى: إذا كان مشروطاً صار قرضاً فيه منفعة وهو رباً، وإلا فلا بأس به ا هـ ما في المنح ملخصاً ‘‘. 
  ’’ وَالْغالِبُ مِنْ اَحْوَالِ النَّاسِ اَنَّهَمْ اِنَّمَا یُرِیْدُونَ عِنْدَ الْدَفْعِ اَلاِنْتِفَاعَ وَلَولَاه لَمَا اَعْطَاه الْدَّرَاهمَ وَهذا بِمَنْزِلَةِ الْشَرْطِ؛ لِأَنَّ الْمَعْرُوفَ کَالْمَشْرُوطِ وَهوَ یُعِیْنُ الْمَنْعَ‘‘. (الدر المختار مع ردالمحتار: ۵/ ۳۱۱)

2۔ جیسا کہ نمبر 1 میں وضاحت کی گئی کہ مرتہن کا  شے مرہون  سے نفع  اُٹھانا سود  کے  زمرے  میں  آنے  کی  وجہ سے حرام ہے؛ لہٰذا گروی رکھے گئے  مکان کو کرایہ پہ دے اس کا کرایہ حاصل کرنا جائز نہیں ہے ۔

3۔ اس سوال سے مراد اگر یہ ہے کہ مثلاً: آپ کے پاس کوئی شخص مکان گروی رکھتا ہے اور کچھ قرض وغیرہ لیتا ہےتو یہ مکان مرہون (گروی)ہے اور آپ مرتہن ہیں تو رہن کے  مکان میں راہن کی اجازت سے کرایہ پر رہ سکتے ہیں،  لیکن پہلا  معاملہ  (یعنی عقدِ رہن) ختم ہوجائے گا، اور اس پر اِجارہ (کرایہ داری) کے احکام جاری ہوجائیں گے، اور اگر گروی کے عوض ہی اس میں رہائش رکھی گئی تو یہ اپنے قرض سے نفع اٹھانا ہے جو شرعاً سود کے حکم میں ہے۔  فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144207200055

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں