میں ایک اسکول میں کام کرتا ہوں عراق میں ،وہاں اکثر بینچوں کے نیچے پیسے ملتے ہیں، اور میں ان کے حقیقی مالک کو نہیں جانتا، کیا میں وہ استعمال کر سکتاہوں ؟ یا حرام کے زمرے میں آتا ہے؟
صورت ِ مسئولہ میں سائل کے لیے ضروری تھا کہ بینچوں کے نیچے جو پیسے دوران کام یا صفائی سائل کو ملتے تھے وہ اپنے پاس رکھنے کے بجاۓ اسکول انتظامیہ /ہیڈ ماسٹر کے حوالے کرتا ، تاکہ وہ کلاس کے بچوں سے معلومات کرکے جس کی جو رقم یا سامان ہو وہ اس کے حوالے کرتے ، اس رقم کو اٹھا کر اپنے قبضہ میں یا استعمال میں لانا کسی طرح بھی جائز نہیں بلکہ حرام ہے ، نیز ابھی بھی سائل کو چاہیےکہ وہ رقم اسکو ل انتظامیہ کےحوالے کرے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"وفي البدائع وإن أخذها لنفسه حرم لأنها كالغصب."
(کتاب اللقطة ، ج: 4، ص: 276، ط: سعید)
وایضاً:
"إن أخذها لنفسه لم يبرأ من ضمانها إلا بردها إلى صاحبها كما في الكافي."
(کتاب اللقطة ، ج: 4، ص: 276، ط: سعید)
وفیہ ایضاً:
"و الحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، و إلا فإن علم عين الحرام لايحل له و يتصدق به بنية صاحبه."
(کتاب البیوع، باب البيع الفاسد، مطلب فيمن ورث مالا حراما، ج:5، ص:99، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144409101602
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن