اگر راستے میں کوئی کھانے پینے کی چیز پڑی ہو تو اس کو کھانے کا کیا حکم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں راستے میں کھانے پینے کی چیز پڑی ہوئی مل جائے اور اٹھانے والا خود مستحق ہو تو وہ استعمال کر سکتا ہے، اگر خود مستحق نہ ہو تو مالک کی طرف سے کسی مستحق کو صدقہ کرے گا۔
پھر اگر مالک آجائے تو اٹھانے والے پر لازم ہے کہ اگر وہ چیز اس نے صدقہ نہ کی ہو تو وہی چیز اس کے حوالے کردے، اگر صدقہ کردی ہو تو اس کی قیمت دینا اس کے ذمے لازم ہوگا،تاہم اگر مالک اس صدقہ کی اجازت دیتے ہوئے اس کو نافذ کردے تو اس کا ثواب مالک کو ملے گا۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(قوله: إلى أن علم أن صاحبها لا يطلبها) لم يجعل للتعريف مدة اتباعا للسرخسي فإنه بنى الحكم على غالب الرأي، فيعرف القليل والكثير إلى أن يغلب على رأيه أن صاحبه لا يطلبه، وصححه في الهداية، وفي المضمرات والجوهرة وعليه الفتوى...قال في الهداية فإن كانت شيئا يعلم أن صاحبها لا يطلبها كالنواة وقشر الرمان يكون إلقاؤه إباحة، حتى جاز الانتفاع به بلا تعريف ولكنه يبقى على ملك مالكه؛ لأن التمليك من المجهول لا يصح، وفي شرح السير الكبير: لو وجد مثل السوط والحبل فهو بمنزلة اللقطة، وما جاء في الترخيص في السوط فذاك في المنكسر ونحوه مما لا قيمة له ولا يطلبه صاحبه بعدما سقط منه وربما ألقاه مثل النوى وقشور الرمان وبعر الإبل وجلد الشاة الميتة. أما ما يعلم أن صاحبه يطلبه فهو بمنزلة اللقطة."
(فإن جاء مالكها) بعد التصدق (خير بين إجازة فعله ولو بعد هلاكها) وله ثوابها (أو تضمينه)."
(کتاب اللقطۃ، ج:4، ص:275/278، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144403100011
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن