بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گیم میں شرط لگانا ہارے والا کھانا کھلائے گا


سوال

5 دوستوں  میں    سے چار نے شرط لگائی کہ جو تین افراد گیم میں ہار گئے وہ کھانے کے پیسے بھریں گے،کھانے کا بل بنا 3600 اور جو تین ہارے تھے انہوں نے 3000 دئے، اور  300 جیتنے والے نے اورایک دوست گیم میں شامل نہیں تھا  300 اس نے دئے، یہ جائز ہوگا یا شرط کے حکم میں ہوگا؟اور جو دوست گیم میں شامل نہیں تھا اس کے لیے کھانے کا کیا حکم ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ چند لوگوں کا آپس میں مل کر کسی ایسے کھیل میں بغیر شرط لگائے ہار جیت کا مقابلہ کرنا کہ جس کھیل میں کوئی جسمانی یا دینی فائدہ ہو تو جائز ہے،جس کھیل میں کسی قسم کا دنیوی،دینی یا جسمانی فائدہ نہ ہو،بلکہ اس کو محض وقت گزاری کےلیے کھیلا جائے تو ایسا کھیل مکروہ ہے اور اگر اس سے کسی فرض یا واجب میں کوتاہی پیداہو تو ایسا کھیل کھیلنا حرام ہے،جہاں تک شرط لگانے کی بات ہے تو اس کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ اگرکوئی جائز اور مباح کھیل ہو  تو اس میں شرط لگانا جائز ہے،بشرط یہ کہ  شرط ایک طرف سے ہو،دونوں طرف سے نہ ہو،اگر دونوں طرف سے ہوگی تو یہ ناجائز ہوگا،اسی طرح یہ شرط بھی نہ ہو کہ کھیل میں جو بھی جیتاوہ فلاں چیز کا حق دار ہوگا یا اس پر فلاں کام لازم ہے،اگر اس قسم کی شرط ہو تو یہ بھی جائز نہیں ہے،اس کے علاوہ جو کھیل اس طرح کے نہ ہوں ان میں شرط لگانا مطلقاً ناجائز ہے۔

مذکورہ تفصیل کی رُو سےصورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ گیم میں شریک افراد میں سے ایک نے یہ کہاکہ ’’اس کھیل میں جو تین افراد گیم میں ہار گئے وہ کھانے کے پیسے بھریں گے‘‘،تو  یہ صورت  جائز نہیں،اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی رقم کو استعمال کرنانہ کھیل میں شریک ہونے والے کے لیے جائز ہے اور نہ ہی کسی اور فرد کے لیے جائز ہے، اگر اس  کیساتھ ان لوگوں نے اپنے پیسے بھی ملایا تب بھی جائز نہیں کیونکہ اکثریت حرام پیسے شامل ہے،جو گیم میں شریک نہیں تھا اس کے لیے بھی کھانا جائز نہیں ہے۔

قرآن ِ کریم میں ہے:

"یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ."(المائده 90)

ترجمہ:" اے ایمان والو بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں سو اس سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو۔"

دوسری جگہ ارشاد ہے:

"{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ }." [لقمان:6]

ترجمہ :"اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی باتوں کے خریداربنتے ہیں،تاکہ ان کے ذریعے لوگوں کو بے سمجھے بوجھے اللہ کے راستے سے بھٹکائیں اور اس کا مذاق اُڑائیں۔ان لوگوں کو وہ عذاب ہوگا جو ذلیل کرکے رکھ دے گا۔"

 

روح المعانی میں ہے:

"ولهو الحديث على ما روي عن الحسن: كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها". 

(تفسیر آلوسیؒ (ج:11، ص: 66)، سورۃ لقمان، ط:دار الکتب العلمیه)

تکملة فتح الملهم  میں ہے:

"فالضابط في هذا . . . أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، . . . وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي  عنه من الكتاب أو السنة . . . كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين ، الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله  وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً، والثاني ماليس كذالك  فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح،  بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه . . . وعلي هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل علي معصية أخري، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الاخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه. "

 (تکملة فتح الملهم، قبیل کتاب الرؤیا،ص؛435،ج:4، ط:دارالعلوم کراچی)

"فتاوی شامی میں"میں ہے:

"(و) كره تحريما (اللعب بالنرد و) كذا (الشطرنج) بكسر أوله ويهمل ولا يفتح إلا نادرا وأباحه الشافعي وأبو يوسف في رواية...وهذا إذ لم يقامر ولم يداوم ولم يخل بواجب وإلا فحرام بالإجماع(و) كره (‌كل ‌لهو) لقوله عليه الصلاة والسلام"كل ‌لهو المسلم حرام إلا ثلاثة: ملاعبته أهله وتأديبه لفرسه ومناضلته بقوسه."

(کتاب الحظر والإباحة،فصل في البيع، ج:6، ص:394، ط: سعيد)

وفیه ايضاً:

"قوله فيباح كل الملاعب: أي التي تعلم الفروسية وتعين على الجهاد، لأن ‌جواز ‌الجعل فيما مر إنما ثبت بالحديث على خلاف القياس، فيجوز ما عداها بدون الجعل...قوله ومفاده لزومه بالعقد: انظر ما صورته. وقد يقال معنى قوله لعدم العقد: أي لعدم إمكانه على أن ‌جواز ‌الجعل فيما ذكر استحسان قال الزيلعي: والقياس أن لا يجوز لما فيه من تعليق التمليك على الخطر، ولهذا لا يجوز فيما عدا الأربعة كالبغل وإن كان الجعل مشروطا من أحد الجانبين."

(کتاب الحظر والإباحة،فصل في البيع، ج:6، ص: 403، ط:سعيد)

وفيه ايضاً:

"‌ ‌لو ‌قالا: من ظهر معه الصواب منا فله على صاحبه كذا فلا يصح، لأنه شرط من الجانبين وهو قمار إلا إذا أدخلا محللا بينهما."

(کتاب الحظر والإباحة،فصل في البيع، ج:6، ص: 404، ط: سعيد)

وفیہ ایضاً:

"قوله وحرم شرط الجعل من الجانبين) بأن يقول إن سبق فرسك، فلك علي كذا وإن سبق فرسي، فلي عليك كذا زيلعي.(قوله إلا إذا أدخل محللا) المناسب أدخلا وصورته أن يقولا لثالث إن سبقتنا فالمالان لك، وإن سبقناك فلا شيء لنا عليك، ولكن الشرط الذي شرطاه بينهما وهو أيهما سبق كان له الجعل على صاحبه باق على حاله، فإن غلبهما أخذ المالين، وإن غلباه فلا شيء لهما عليه، ويأخذ أيهما غلب المال المشروط له من صاحبه زيلعي (قوله بشرطه) وهو أن يكون فرس المحلل كفؤا لفرسيهما يجوز أن يسبق أو يسبق."

(مسائل شتي، ج: 6، ص: 752، ط: سعيد)

"ألفتاوي الهندية"میں ہے:

"وحرم شرط ‌الجعل من ‌الجانبين لا من أحد ‌الجانبين، ومعنى شرط ‌الجعل من ‌الجانبين أن يقول: إن سبق فرسك فلك علي كذا، وإن سبق فرسي فلي عليك كذا وهو قمار فلا يجوز، وإذا شرط من جانب واحد بأن يقول: إن سبقتني فلك علي كذا، وإن سبقتك فلا شيء لي عليك جاز استحساناولا يجوز فيما عدا الأربعة المذكورة في الكتاب كالبغل، وإن كان ‌الجعل مشروطا من أحد الجانبين... ولو شرطا الجعل من الجانبين وأدخلا ثالثا محللا جاز إذا كان فرس المحلل كفؤا لفرسيهما يجوز أن يسبق ويسبق، وإن كان يسبق أو يسبق لا محالة فلا يجوز،... والمراد بالجواز المذكور في باب المسابقة الحل دون الاستحقاق حتى لو امتنع المغلوب من الدفع لا يجبره القاضي ولا يقضي عليه به."

(مسائل شتی، ج:6، ص:446، ط:دار الفکر،بیروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144503100870

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں