بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنے حصہ وراثت سے دستبردار ہونے کا حکم


سوال

بیٹیوں نے اپنی مرضی سے اور اپنے خاوندوں سے اجازت لے کر اپنی ماں کو زمین ہبہ کر دی اور ماں نے اپنے بیٹے کی اجازت سے جو کہ اس کا ایک ہی بیٹا ہے، اپنے پوتوں کو زمین ہبہ کر دی، اب وہ بیٹیاں اور ماں فوت ہو گئے ہیں اور ہبہ 1984کو ہوا تھا، بیٹیاں 2020کو فوت ہو گئی تھیں، اب ایک بیٹی کی اولاد ہبہ توڑنا چاہتی ہے۔

تنقیح:1۔ یہ زمین بیٹیوں کی ذاتی تھی یا والد کی متروکہ زمین کا حصہ؟

2۔ اگر والد کی متروکہ زمین کا حصہ تھا تو کچھ لے کر بقیہ چھوڑا تھا؟ یا کچھ لیے بغیر دستبردار ہوگئی تھیں؟سوال میں ان  امور کی وضاحت مطلوب ہے۔

جواب تنقیح:زمین ان کے والد کی وفات کے بعد وراثت میں ملی تھی، دونوں بیٹیوں نے زمین کچھ لیے بغیر خوشی سے اپنی والدہ کو ہبہ کر دی تھی، اس کے بعد ان کی والدہ نے اپنے پوتوں کو ہبہ کر دیا،انتقال کے گواہان ان کے شوہر ہیں ،وہ بھی فوت ہو گئے ہیں، ایک عالم دین نے کہا ہے کہ ہبہ واپس لینا ایسا ہے کہ جیسے کتا قے کر کے اس کو چاٹ لیتا ہے:

حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :الْعَائِدُ فِي هِبَتِهِ كَالْكَلْبِ يَقِيءُ ، ثُمَّ يَعُودُ فِي قَيْئِهِ.

حدیث نمبر 2589بخاری شریف

جواب

واضح رہے کہ کسی وارث کا اپنے شرعی حصہ سے قبضہ سے پہلےیا بلا عوض دستبردار ہوجانا شرعاً معتبر نہیں ہے، البتہ ترکہ تقسیم ہوجائےتو پھر ہر ایک وارث اپنے حصے پر قبضہ کرنے  کے بعد اپنا حصہ کسی  کو دینا چاہے  یا کسی کے حق میں دست بردار ہوجائے تو یہ شرعاً جائز اور  معتبر ہے، اسی طرح کوئی وارث ترکہ میں سے کوئی چیز لے کر (خواہ وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو)  صلح کرلے اور ترکہ میں سے اپنے باقی حصہ سے دست بردار ہوجائے تو یہ بھی درست ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر بیٹیوں نے کچھ لیے بغیر اور زمین كا حصہ متعین کرنے کے بغیر زمین  اپنی والدہ کو ہبہ کیا تھا تو شرعا یہ درست نہیں ہوا،بلکہ وہ زمین بدستور بیٹیوں کی ملکیت میں ہونے کی وجہ سے ان کے انتقال کے بعد ورثاء کی ملکیت شمار ہوگی،اور اگر زمین کا حصہ متعین کرنے کے بعد بیٹیوں نے والدہ کوہبہ کیا تھا پھر والدہ نے پوتوں کو تقسیم کرکے ہبہ کردیاتھا تو اب اس زمین کا حق دار وہی ہے جس کو وہ زمین ہبہ کردی گئی،ایسی صورت میں بیٹیوں کی اولاد کا اس زمین میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ 

تکملۃ رد المحتار علی الدر المختارمیں ہے:

" الإرث جبري لَا يسْقط بالإسقاط."

(کتاب الدعوی،ج7،ص505،ط؛سعید)

الأشباہ والنظائر لابن نجیم  میں ہے: 

"لو قال الوارث: تركت حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك."

(ما یقبل الاسقاط من الحقوق وما لا یقبلہ ،ص؛309، ط:قدیمی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101721

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں