بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ کا حکم


سوال

کیا گزرے ہوئے  سالوں کی زکوٰۃ  بھی اد کرنی  ہوتی  ہے، مطلب زکوٰۃ  قضا ہوتی  ہے، یا ساقط  ہوجاتی ہے  جب کہ گزشتہ  سالوں  مالی نقصانات بہت ہوئے یا  ادا  کرنی پڑتی ہے   جس  جس سال نہیں دی؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں اگر کسی شخص نے زکوۃ واجب ہونے کے باجودکسی سال کی زکوٰۃ ادا نہیں کی تو اس پر گزشتہ سال کی زکوٰۃ ادا کرنا بھی واجب ہوگا، اور یہ  زکوٰۃ  اس کے ذمہ میں لازم رہے  گی اور  اگلے سال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہوئے گزشتہ سال کی واجب الادا  زکوٰۃ اس میں سے منہا کی جائے گی؛ لہذا جس جس سال کی زکوٰۃ ادا نہیں ہو اور  اس کا صحیح  حساب یاد نہ ہو تو  غالب گمان  کے مطابق اندازہ کرکے اس کی زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہوگا، اگر فی الفور زکوٰۃ دینا مشکل ہو تو حساب کرکے نوٹ کرلیجیے اور پھر حسب استطاعت زکوٰۃ نکالتے رہیں۔

بدائع الصنائع  میں ہے:

"و أما وجوب الزكاة فمتعلق بالنصاب إذ الواجب جزء من النصاب، و استحقاق جزء من النصاب يوجب النصاب إذ المستحق كالمصروف … و بيان ذلك أنه إذا كان لرجل مائتا درهم أو عشرين مثقال ذهب فلم يؤد زكاته سنتين يزكي السنة الأولى، و ليس عليه للسنة الثانية شيء عند أصحابنا الثلاثة، و عند زفر يؤدي زكاة سنتين، و كذا هذا في مال التجارة، و كذا في السوائم إذا كان له خمس من الإبل السائمة مضى عليها سنتان و لم يؤد زكاتها أنه يؤدي زكاة السنة الأولى و ذلك شاة و لا شيء عليه للسنة الثانية، و لو كانت عشراً و حال عليها حولان يجب للسنة الأولى شاتان و للثانية شاة، و لو كانت الإبل خمسًا و عشرين يجب للسنة الأولى بنت مخاض و للسنة الثانية أربع شياه. و لو كان له ثلاثون من البقر السوائم يجب للسنة الأولى تبيع أو تبيعة و لا شيء للسنة الثانية و إن كانت أربعين يجب للسنة الأولى مسنة و للثانية تبيع أو تبيعة."

 (2/7، کتاب الزکاۃ، ط: سعید) 

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201531

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں