بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گزشتہ دس سالوں کی زکوٰۃ قسطوں میں دینا


سوال

میں نے پچھلے 10 سالوں سے زکوٰۃ  نہیں دی کیا میں قسط میں زکوٰۃ ادا کرسکتا ہوں؟

جواب

زکوۃ  ادا کرنے میں بلاعذر تاخیر کرنا مکروہ ہے، اگر سال سے زیادہ بلاعذر تاخیر کی تو ایک قول کے مطابق گناہ گار ہوگا، اور موت تک تاخیر کی تو آخرت کی پکڑ کا باعث ہوگا، البتہ  اگر عذر کی وجہ سے تاخیر ہوجائے تو گنجائش ہے، اور عذر زائل ہوتے  ہی اس کو جلد از جلد ادا کردینا چاہیے؛ کیوں کہ زکوٰۃ  دینی فریضہ ہے اور اس سے جلد سبک دوشی بہترہے۔

اب گزشتہ دس سالوں کی زکوٰۃ آپ کے ذمہ لازم ہے، اگر یک مشت دینا مشکل ہو تو قسط وار بھی دے سکتے ہیں، گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ کا حساب کرلیں اور ہر سال میں ڈھائی فیصد زکوٰۃ نکالیں اور اس مقدار کو  اگلے سال کی زکاۃ   نکالتے وقت منہا کیا جائے گا، اسی طرح آگے کرتے رہیں، مثلا پہلے سال کی زکوٰۃ کا حساب کرنے کے بعد   دوسرے سال  کی زکاۃ کا حساب لگاتے ہوئے کل مالیت میں سے پہلے سال  واجب ہونے والی زکاۃ کی  رقم منہا کر کے چالیسواں حصہ (ڈھائی فیصد) نکالیں، کیوں کہ یہ  ذمہ میں  واجب الادا  قرضہ ہے، اسی طرح تیسرے سال کی زکاۃ کا حساب لگاتے ہوئے کل مالیت میں سے پہلے اور دوسرے  سال  واجب ہونے والی زکاۃ کے برابر رقم منہا کرنے کے بعد پھر چالیسواں حصہ ( ڈھائی فیصد) نکالیں۔

اور اگر آپ ہر سال زکوٰۃ کا حساب کرتے رہے ہیں لیکن زکوٰۃ ادا نہیں کی ہے تو پھر اسی حساب سے زکوٰۃ کی رقم الگ کرکے نوٹ کرلیں، پھر جس طرح سہولت نکالتے رہیں۔

الفتاوى الهندية  (5 / 14):

"وَتَجِبُ عَلَى الْفَوْرِ عِنْدَ تَمَامِ الْحَوْلِ حَتَّى يَأْثَمَ بِتَأْخِيرِهِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ ، وَفِي رِوَايَةِ الرَّازِيّ عَلَى التَّرَاخِي حَتَّى يَأْثَمَ عِنْدَ الْمَوْتِ ، وَالْأَوَّلُ أَصَحُّ كَذَا فِي التَّهْذِيبِ". 

بدائع الصنائع  میں ہے:

"وأما وجوب الزكاة فمتعلق بالنصاب إذ الواجب جزء من النصاب، واستحقاق جزء من النصاب يوجب النصاب إذ المستحق كالمصروف … وبيان ذلك أنه إذا كان لرجل مائتا درهم أو عشرين مثقال ذهب فلم يؤد زكاته سنتين يزكي السنة الأولى، وليس عليه للسنة الثانية شيء عند أصحابنا الثلاثة، وعند زفر يؤدي زكاة سنتين، وكذا هذا في مال التجارة، وكذا في السوائم إذا كان له خمس من الإبل السائمة مضى عليها سنتان ولم يؤد زكاتها أنه يؤدي زكاة السنة الأولى وذلك شاة ولا شيء عليه للسنة الثانية، ولو كانت عشراً وحال عليها حولان يجب للسنة الأولى شاتان وللثانية شاة، ولو كانت الإبل خمساً وعشرين يجب للسنة الأولى بنت مخاض وللسنة الثانية أربع شياه. ولو كان له ثلاثون من البقر السوائم يجب للسنة الأولى تبيع أو تبيعة ولا شيء للسنة الثانية وإن كانت أربعين يجب للسنة الأولى مسنة وللثانية تبيع أو تبيعة".

(2/7، کتاب الزکاۃ، ط: سعید)  

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109201929

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں