بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گناہ کا ارادہ کرتے وقت ان شاء اللہ کہنے کا حکم


سوال

گناہ کا ارادہ کرتے وقت ان شاء اللہ کہنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی جائز اور اچھے کام کا عزم کرتے ہوئے "ان شاء اللہ"  کہنا  چاہیے کیوں کہ ان شاء اللہ  کا مقصد دراصل اس کام کو  اللہ تعالیٰ کی مشئیت پر موقوف کرنا اللہ تعالیٰ سے حسنِ ظن رکھتے ہوئے اس کام کے سر انجام دینے کا عزم کرنا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اس میں برکت پیدا ہوجاتی ہے اور اس کام کو کرنا آسان ہوجاتا ہے،  جب کہ ان شاء اللہ نہ کہنے میں   اعجاب (خود پسندی) اور اللہ تعالیٰ سے بے نیازی کا پہلو ہوتا ہے، اس لیے اس میں برکت  ختم ہوجاتی ہے۔ 

لیکن کسی ناجائز اور برے کام کا ارادہ کرتے ہوئے "ان شاء اللہ " کہنا  درست نہیں ہے کیوں کہ  برائی کے ارادے کو اللہ تعالی کی مشیت اور رضا کی طرف منسوب کرنا درست نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں  ارشاد فرمایا ہے :

{وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَلِكَ غَدًا (23) إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذَا نَسِيتَ وَقُلْ عَسَى أَنْ يَهْدِيَنِ رَبِّي لِأَقْرَبَ مِنْ هَذَا رَشَدًا } [الكهف: 23، 24]

ترجمہ :  "اور آپ کسی کام کی نسبت یوں نہ کہا کیجیئے کہ میں اس کو کل کروں گا،  مگر خدا کے چاہنے کو ملا دیجیئے اور جب آپ بھول جاویں تو اپنے رب کا ذکر کیجیئے اور کہہ دیجیئے کہ مجھ کو امید ہے کہ میرا رب مجھ کو (نبوت کی) دلیل بننے کے اعتبار سے اس سے بھی نزدیک تر بات بتلا دے"۔ (از بیان القرآن)

اس آیت کی تفسیر میں معارف القرآن میں منقول ہے:

"آئندہ کسی کام کے کرنے کو کہنا ہو تو ان شاء اللہ کہہ کر اس کا اقرار کرلیا کریں کہ ہر کام اللہ تعالیٰ کے ارادے اور مشیت پر موقوف ہے۔۔۔۔مسئلہ : اس آیت سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ ایسی صورت میں ان شاء اللہ کہنا مستحب ہے، دوسرے یہ معلوم ہوا کہ اگر بھولے سے یہ کلمہ کہنے سے رہ جائے تو جب یاد آئے اسی وقت کہہ لے یہ حکم اس مخصوس معاملہ کے لئے ہے جس کے متعلق یہ آیات نازل ہوئی ہیں، یعنی محض تبرک اور اقرار عبدیت کے لئے یہ کلمہ کہنا مقصود ہوتا ہے، کوئی تعلیق اور شرط لگانا مقصود نہیں ہوتا ۔۔۔ الخ (سورۃ کہف آیت نمبر24)

الفقه الأكبر میں ہے:

" والطاعات كلها كانت واجبة بأمر الله تعالى وبمحبته وبرضائه وعلمه ومشيئته وقضائه وتقديره ‌والمعاصي ‌كلها ‌بعلمه وقضائه وتقديره ومشيئته لا بمحبته ولا برضائه ولا بأمره."

(‌‌الطاعات محبوبة لله والمعاصي مقدورة غير محبوبة، ص:35، ط:مكتبة الفرقان)

منهاج السنة النبوية میں ہے:

"والمحققون من هؤلاء يقولون: ‌الإرادة ‌في ‌كتاب ‌الله ‌تعالى ‌نوعان: إرادة خلقية (3) قدرية كونية، وإرادة دينية [أمرية] شرعية (4) فالإرادة الشرعية الدينية هي المتضمنة للمحبة والرضا والكونية هي [المشيئة] (5) الشاملة لجميع الحوادث، كقول المسلمين: ما شاء الله كان وما لم يشأ لم يكن. وهذا كقوله تعالى {فمن يرد الله أن يهديه يشرح صدره للإسلام ومن يرد أن يضله يجعل صدره ضيقا حرجا كأنما يصعد في السماء} [سورة الأنعام: 125] وقوله عن نوح {ولا ينفعكم نصحي إن أردت أن أنصح لكم إن كان الله يريد أن يغويكم هو ربكم وإليه ترجعون} [سورة هود: 34] .فهذه الإرادة ،  تعلقت بالإضلال والإغواء وهذه هي المشيئة فإن ما شاء الله كان.[ومنها قوله: {ولكن الله يفعل ما يريد} [سورة البقرة: 253] أي ما شاء خلقه (7) لا ما يأمر به]."

(فصل كلام الرافضي في القضاء والقدر أن الله عز وجل يفعل القبائح، ج:3، ص:16، ط:جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے:

"والإتيان بالبسملة عمل يصدر من المكلف فلا بد أن يتصف بحكم، فتارة يكون فرضا كما عند الذبح  وتارة يكون واجبا على القول بأنها آية من الفاتحة، وإن كان خلاف المذهب؛ لأن الأخبار الواردة فيها مع المواظبة تفيد الوجوب وتارة يكون سنة كما في الوضوء، وأول كل أمر ذي بال ومنه الأكل والجماع ونحوهما، وتارة يكون مباحا كما هي بين الفاتحة والسورة على الراجح، وفي ابتداء المشي والقعود مثلا؛ لأنها إنما تطلب لما فيه شرف صونا عن اقتران اسمه تعالى بالمحقرات وتيسيرا على العبادة، فإن أتي بها في محقرات الأمور كلبس النعال على وجه التعظيم والتبرك فهو حسن، وتارة يكون الإتيان بها حراما كما عند الزنا ووطء الحائض وشرب الخمر وأكل مغصوب، أو مسروق قبل الإستحلال، أو أداء الضمان، والصحيح أنه إن استحل ذلك عند فعل المعصية كفر، وإلا لا، وتلزمه التوبة إلا إذا كان على وجه الاستخفاف فيكفر أيضا."

(‌‌خطبة الكتاب، ص:5، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506102027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں