بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گھٹنوں کی تکلیف کی وجہ سے کرسی پر نماز پڑھنا


سوال

  جو شخص سجدہ کرنے میں گٹھنے میں شدید دردمحسوس کرے،اس کے لیےکرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ معمولی تکلیف کی وجہ سے فرض نماز میں قیام ترک کرنا اور بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں،البتہ اگر گھٹنوں یا قدموں میں شدید تکلیف (ناقابل برداشت)ہو،یا کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی صورت میں تکلیف کے بڑھ جانے کا یا مرض سے صحتیابی میں  تاخیر کا ظنِ غالب ہو تو ایسی صورتوں  میں بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز ہے،لیکن اگر زمین پر سجدہ کرنے کی قدرت ہو تو اگر  تھوڑی  دیر کےلیے  ہی کھڑے ہونے کی طاقت  ہوتب بھی اتنی دیر کھڑا ہونا فرض ہے،  اگر چہ  دیوار یالاٹھی  وغیرہ کے ساتھ ٹیک  لگانی پڑے، اس صورت میں بیٹھ کر نماز پڑھنا  جائز نہیں۔

اگر قیام پر قدرت ہو مگر زمین پر وسجدہ  پر قدرت نہ ہو تو  بیٹھ کرنماز پڑھنا اور اشارے کے ساتھ سجدہ کرنا جائز ہے، 

جن صورتوں میں بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز ہے، ان میں افضل یہ ہے کہ زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھے، زمین پر پڑھنے  کی  جو کیفیت آسان ہو اس پر عمل کرے، چاہے تشہد کی حالت ہو، چار زانو ہو ، قبلے کی جانب پیر پھیلا کر ہو یا ٹیک لگا کر بیٹھنا ہو، لیکن اگر زمین پر بھی بیٹھناممکن نہ ہو تو کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتے ہیں ۔لہذا مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق اگرگھٹنوں میں تکلیف کی وجہ سےسجدے میں شدید تکلیف  ہو تو کرسی یا زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(من تعذر عليه القيام) أي كله (لمرض) حقيقي وحده أن يلحقه بالقيام ضرر به يفتى(قبلها أو فيها) أي الفريضة (أو) حكمي بأن (خاف زيادته أو بطء برئه بقيامه أو دوران رأسه أو وجد لقيامه ألماً شديدًا) أو كان لو صلى قائمًا سلس بوله أو تعذر عليه الصوم كما مر (صلى قاعدًا) ولو مستندًا إلى وسادة أو إنسان فإنه يلزمه ذلك على المختار (كيف شاء) على المذهب؛ لأن المرض أسقط عنه الأركان فالهيئات أولى. وقال زفر: كالمتشهد، قيل: وبه يفتى (بركوع وسجود وإن قدر على بعض القيام) ولو متكئًا على عصًا أو حائط (قام) لزومًا بقدر ما يقدر ولو قدر آية أو تكبيرة على المذهب؛ لأن البعض معتبر بالكل (وإن تعذرا) ليس تعذرهما شرطًا بل تعذر السجود كاف (لا القيام أومأ) بالهمز (قاعدًا) وهو أفضل من الإيماء قائمًا لقربه من الأرض (ويجعل سجوده أخفض من ركوعه) لزوماً ... الخ"

"(قوله: لمرض حقيقي إلخ) قال في البحر: أراد بالتعذر التعذر الحقيقي، بحيث لو قام سقط، بدليل أنه عطف عليه التعذر الحكمي وهو خوف زيادة المرض... (قوله: أو وجد لقيامه) أي لأجله ألماً شديدًا ... (قوله: بل تعذر السجود كاف) نقله في البحر عن البدائع وغيرها. وفي الذخيرة: رجل بحلقه خراج إن سجد سال وهو قادر على الركوع والقيام والقراءة يصلي قاعدًا يومئ؛ ولو صلى قائمًا بركوع وقعد وأومأ بالسجود أجزأه، والأول أفضل؛ لأن القيام والركوع لم يشرعا قربة بنفسهما، بل ليكونا وسيلتين إلى السجود. اهـ".

(کتاب الصلاة،باب صلاة المریض،ج:2،ص:95،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101162

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں