بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھٹنے کے آپریشن کی وجہ سے وضو میں مشکل ہو تو تیمم کا حکم


سوال

میرے گھٹنے کا آپریشن ہوا ہے، اور ڈاکٹر نے دو ہفتے مکمل آرام کا مشورہ دیا ہے اور ٹانگ کو موڑنے سے منع کیا ہے، اس حالت میں ٹانگ سیدھی رکھ کر پانی سے وضو کرنا انتہائی مشکل اور گھٹنے پر زور پڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے، ایسی حالت میں تیمم کرنے کی گنجائش ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر اعضاءِ وضو پر پانی لگنے سے  پانی لگنے سے شدید نقصان کا اندیشہ نہ ہو تو  اس صورت میں تیمم کرنا جائز نہیں ہوگا، وضو کے دوران پاؤں کو اپنے ہاتھوں سے دھونا ضروری نہیں ہے،  پاؤں پر شاور کے ذریعے پانی ڈال سکتے ہیں، یا اس کو سیدھا سیدھا صرف نل کے نیچے رکھ لینے سے، یا کسی ٹب میں پانی ڈال کر اس میں پاؤں ڈال لینے سے  بھی پاؤں دھونے کا فرض ادا ہوجائے گا، نیز  بیوی، بچے یا کسی خادم وغیرہ سے بھی یہ خدمت لے لی جائے تو مضائقہ نہیں ہے، نیز یہ صورت بھی اختیار کی جاسکتی ہے کہ دن میں ایک بار دھوکر چمڑے والے موزے پہن لیں، اور پھر باقی دن وضو کرتے ہوئے پاؤں پر صرف مسح کرلیں۔

لیکن اگر ان میں سے کوئی صورت بھی اختیار نہیں کی جاسکتی ہو  (یعنی وضو کرانے والا بھی کوئی نہ ہو، شاور یا اسپرے گن سے بھی پانی نہ ڈال سکتے ہوں، کھڑے ہوکر نل کے نیچے پاؤں بھی نہ کرسکتے ہوں، خود چل کر کسی برتن وغیرہ سے پانی بھی نہ ڈال سکتے ہوں، نہ ٹب وغیرہ میں لیٹے لیٹے یا بیٹھے بیٹھے پاؤں ڈال سکتے ہوں) اور وضو کرنے کی صورت میں حرکت کی وجہ سے پاؤں کا مرض بڑھ جانے کا اندیشہ ہو تو  تیمم کرنا جائز ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 233):

"(أو لمرض) يشتد أو يمتد بغلبة ظن أو قول حاذق مسلم ولو بتحرك، أو لم يجد من توضئه، فإن وجد ولو بأجرة مثل وله ذلك لا يتيمم في ظاهر المذهب كما في البحر.

(قوله: يشتد) أي يزيد في ذاته، وقوله أو يمتد: أي يطول زمنه، وكذا لو كان صحيحًا خاف حدوث مرض كما في القهستاني، وهو معلوم من قول المصنف أو برد (قوله: بغلبة ظن) أي عن أمارة أو تجربة شرح المنية (قوله: أو قول حاذق مسلم) أي إخبار طبيب حاذق مسلم غير ظاهر الفسق، وقيل عدالته شرط شرح المنية (قوله: ولو بتحرك) متعلق بيشتد. اهـ ح ولا مانع من تعلقه بيمتد أيضًا لأن التحرك يكون سببًا في الامتداد أيضًا ط. وفي البحر: ولا فرق عندنا بين أن يشتد بالتحرك كالمبطون أو بالاستعمال كالجدري (قوله: أو لم يجد) أي أو كان لا يخاف الاشتداد ولا الامتداد، لكنه لا يقدر بنفسه ولم يجد من يوضئه (قوله: كما في البحر) حاصل ما فيه أنه إن وجد خادمًا: أي من تلزمه طاعته كعبده وولده وأجيره لا يتيمم اتفاقًا، وإن وجد غيره ممن لو استعان به أعانه ولو زوجته فظاهر المذهب أنه لا يتيمم أيضا بلا خلاف. وقيل على قول الإمام يتيمم، وعلى قولهما لا كالخلاف في مريض لايقدر على الاستقبال أو التحول من الفراش النجس ووجد من يوجهه أو يحوله لأن عنده لا يعتبر المكلف قادرا بقدرة الغير. والفرق على ظاهر المذهب أن المريض يخاف عليه زيادة الوجع في قيامه وتحوله لا في الوضوء. اهـ."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201500

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں