بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غسل واجب ہونے کے وہم کا علاج


سوال

میں نماز کے معاملے میں کمزور ہوں، مجھ سے بہت زیادہ کوتاہی ہوتی ہے، میرے ساتھ کچھ مسئلے ہیں جو میں کسی کو بتا بھی نہیں سکتا۔ میرا مسئلہ یا وہم ایسا ہے کہ میں اگر غسل کر لوں پھر جب تک میں  نماز نہ پڑھ لوں تب تک میں کوئی اور کام نہیں کرتا ۔اپنا فون بھی نہیں استعمال کرتا کہ کہیں کچھ دیکھنے سے غسل نہ خراب ہو جائے، جیسے ہی فون دیکھوں مجھے لگتا ہے میرا غسل خراب ہو گیا ہے۔ اس وہم کی وجہ سے مجھ سے نماز بھی چھوٹ جاتی ہے یا مجھے دکھاوا کرنا پڑتا ہے۔ موبائل کے علاوہ میں رات کو جب سوتا ہوں تو بیوی کے پاس ہونے کی وجہ سے اور بیوی سے بوس و کنار کرنے یا ساتھ لیٹے ہوئے بھی مجھے عضو میں سختی کے ساتھ قطرے آتے ہیں، ایسے میں ذہن میں شک پیدا ہو جاتا ہے کہ غسل ٹوٹ گیا ہے، اس لئے میں نماز نہیں پڑھتا۔ میں نے آپ کے کئی فتوے دیکھے ہیں، لیکن میں یہ نہیں اندازہ لگا سکتا کہ جس صورت میں مجھے قطرے آتے ہیں اس سے غسل ٹوٹتا ہے یا نہیں۔ ایک بار ایسے ہی نماز میں کھڑے کھڑے میرے ذہن میں دین سے پھرنے کا بھی خیال آیا اب میں پریشان ہوں کیا ایسے ذہن میں خیال آنے سے بھی دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے؟ اور دوسرا میں ان مسئلوں کے ساتھ نماز کا اہتمام کیسے کر سکتا ہوں؟

جواب

واضح رہے کہ غسل فرض ہونے کے لیے منی (سفید گاڑھا مادہ) کا اپنی جگہ سے شہوت کے ساتھ جدا ہو کر جسم سے باہر نکلنا ضروری ہے، لہٰذا جب تک  اس طرح  منی نکلنے کا یقین نہ ہو جائے  غسل فرض نہیں ہو گا، محض برے خیالات یا  کی وجہ سے پانی کے رنگ کا لیس دار مادہ بغیر کودے نکلتاہے(جسے مذی کہتے ہیں)  اس سے غسل فرض نہیں ہوتا، البتہ ناپاک ہونے کی وجہ سے  کپڑے یا جسم پر جہاں لگے اسے پاک کرنا ضروری ہوتاہے، اور اس سے وضو ٹوٹ جاتاہے۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں   محض موبائل دیکھنے سے یا بیوی کے پاس  لیٹنے سے اس وقت تک غسل واجب نہیں ہوگا جب تک منی  نکلنے کا یقین نہ ہو (یا بیوی سے دونوں کی شرمگاہیں مل نہ جائیں)۔سائل کو بیوی کے پاس لیٹنے  کی وجہ سے جو قطرے آتے ہیں اگر وہ مذکورہ کیفیت کے ساتھ (یعنی شہوت کے ساتھ ، آلۂ تناسل کے انتشار کے ساتھ کود کر نکلے) تو وہ منی ہے، اس کی وجہ سے غسل واجب ہوجائے گا۔ اور اگر ایسی کیفیت نہ ہو تو یہ  مذی ہے، جس میں غسل واجب نہیں۔

البحر الرائق میں ہے:

’’فرض الغسل عند خروج المني موصوف بالدفق و الشهوة عند الإنفصال عن محله‘‘.

(كتاب الطهارة،  المعاني الموجبة للغسل، 55/1، ط: سعيد)

الدر المختار میں ہے:

’’لو احتلم أو نظر بشهوة فأمسك ذكره حتي سكنت شهوته، ثم أرسله فأنزل وجب عندهما لا عنده ... وبقول أبي يوسف ناخذ‘‘.

شامی میں ہے:

’’ظاهره الميل إلی اختيار ما في النوازل، و لكن أكثر الكتب علي خلافه حتي البحر و النهر، و لا سيما قد ذكروا أن قوله: قياس، و قولهما: استحسان، و أنه الأحوط، فينبغي الإفتاء بقوله في مواضع الضرورة فقط، تأمل‘‘.

(كتاب الطهارة، مطلب في تحرير الصاع و المد و الرطل،159،160/1، ط: سعيد)

سوال میں بیان کردہ صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ سائل وہم اوروسوسے کا مریض ہے۔ وہم اوروسوسے کے مرض میں عموما شیطانی اثرات شامل ہو تے ہیں تاکہ مومن آدمی تسلی سے پاکی اور عبادت وغیرہ ادا نہ کر سکے، جبکہ حقیقت میں وضو اور غسل ہو تا ہے اور عبادت بھی صحیح طور پر ادا ہو رہی ہو تی ہے۔ لہٰذا سائل کو یہ معلوم ہو نا چاہئے کہ محض وسوسے اور وہم سے وضو اور غسل پر کوئی اثر نہیں پڑتا ،اس لئے سائل جب ایک مرتبہ غسل یا وضو کر لیں تو ان کا وضو غسل ہو جائے گا،اور اس کے بعد  جب تک معمول کے مطابق قضائے حاجت اور غسل کی یقینی ضرورت پیش نہ آئے محض وسوسہ آنے سے وضو اور غسل ختم نہیں ہو گا۔

باقی جہاں تک نمازوں کا تعلق ہے اس بارے میں ایک حدیث شریف سامنے رکھیں کہ ایک صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ شیطان مجھے نماز سے روکتا ہے یعنی وسوسے ڈالتا ہے اور نماز کے دوران طرح طرح کے خیالات دل میں ڈالتا ہے،تو اس کا حل یہ بتایا گیا کہ آپ یہ یقین کرلیں کہ آپ جس طرح نماز پڑھ رہے ہیں وہی صحیح ہے اور آپ جیسے کیسے نماز پڑھیں آپ کی نماز ہو جاتی ہے۔ سائل بھی چونکہ مریض ہے اس لئے انہیں جب بھی نماز کے اندر مختلف فاسد خیالات آئیں یا پاکی کے بارے میں شبہ ہو،تو اس حدیث شریف کے بیان کردہ مفہوم کو سامنے رکھیں، اس کے مطابق عمل کریں اور یہ یقین کرلیں کہ وہ جیسے کیسے نماز پڑھتے ہیں ان کی نماز ہو جاتی ہے، نیز محض وساوس کی وجہ سے نماز ہر گز مت چھوڑیں، ان شاء اللہ ایسا کرنے سے شیطان مایو س ہو جائے گااور وہ سائل کا پیچھا چھوڑ دے گا۔

نیز غیر اختیاری طور پر  منافی ایمان خیالات آنے سے  (جب کہ اسے برا سمجھتا ہو )انسان ہر گز  کافر نہیں ہوتا،  بلکہ یہ  ایمان کی علامت ہے، حدیثِ مبارک میں آتا ہے: " حضرت ابوہریرہ   رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے کچھ لوگ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ ہم اپنے دلوں میں کچھ خیالات ایسے پاتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ان کو بیان نہیں کر سکتا، آپ ﷺ نے فرمایا کیا واقعی تم اسی طرح پاتے ہو؟ (یعنی گناہ سمجھتے ہو) صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا جی ہاں! آپ ﷺ نے فرمایا یہ تو واضح ایمان ہے۔

" عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: جَاءَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلُوهُ: إِنَّا نَجِدُ فِي أَنْفُسِنَا مَا يَتَعَاظَمُ أَحَدُنَا أَنْ يَتَكَلَّمَ بِهِ، قَالَ: «أَو قد وجدتموه»؟ قَالُوا: نعم. قَالَ: «ذَاك صَرِيح الْإِيمَان» . رَوَاهُ مُسلم".

(مشكاة المصابيح ،بَاب الوسوسة،كتاب الْإِيمَان، الْفَصْل الأول،(1/ 19)، ط: رحمانیہ)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100347

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں