بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غسل سے پہلے جسم کے ناپاک حصے کو دھونے کا حکم


سوال

1. اگر بدن پر ناپاکی لگی ہوئی ہو (جیسا کہ پیشاب، منی، مذی وغیرہ) خاص کرکے احتلام ہونے کے بعد ران پر منی لگی ہوئی ہوتی ہے، تو غسل سے پہلے وہ علیحدہ دھونا مشکل ہوتا ہے، تو میں نے  اگر غسل کرتے وقت وہاں اچھی طرح سے زیادہ پانی بہا کر مل کر دھو لیا (کبھی صابون بھی استعمال کیا)، تو  اب کیا مجھے اس سے یعنی پاؤں کے ران سے نیچے کے حصے کو بھی مل کر دھونا ضروری ہے؟ یا صرف کافی پانی بہانے سے ہو جائےگا؟ میں کہیں پڑھا تھا کہ ناپاکی پر پانی ڈالنے سے وہ پھیل جاتی ہے۔ تو ابھی غسل کے وقت مجھے بہت پریشانی ہوتی ہے۔ وسوسہ ہوتا ہے۔ بہت وقت ضائع ہوتا ہے۔ بہت دیر تک غسل کرنا پڑتا ہے۔ مطلب میں پہلے اس جگہ جہاں ناپاکی لگی ہے وہ مل مل کر زیادہ پانی سے دھوتا ہوں، پھر اس سے نیچے والے حصے کو بھی پانی سے مل مل کر دھوتا ہوں۔ میں طالب علم ہوں احتلام کے بعد کافی وقت صرف فرض غسل کرنے میں ہی چلا جاتا ہے۔

2.   ــ جو فرش ناپاک لیکن خشک ہوــ اس پر چٹائی اور جائے نماز  بچھا کر نماز پڑھنا درست ہے؟

جواب

1.غسل کے احکام و آداب میں یہ ہے کہ جسم کے جس حصے پر ناپاکی لگی ہوئی ہو، اسے پہلے پاک کرلیا جائے، پھر اس کے بعد غسل کیا جائے، لیکن اگر اس کو پاک کیے بغیر غسل کرلیا جائے اور ناپاکی پہلے الگ سے نہ دھویا جائے، غسل کے دوران ہی اس حصے کو تین مرتبہ دھولیا جائے، یا اس پر اتنا پانی بہا دیا جائے جس سے اس ناپاکی کا اثر چلا جائے، تو بھی غسل درست ہوجائے گا اور جسم پاک ہوجائےگا، باقی زیادہ وسوسوں میں نہ پڑیں اور جب  بھی پاکی ناپاکی سے متعلق وسوسہ آئے تو ذہن اس طرف سے ہٹا دیں، ورنہ جتنا وسوسے کی طرف توجہ کی جاتی ہے، اتنا ہی بیماری میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

باقی ناپاک حصے کو پاک کرنے کے لیے ملنا ضروری نہیں ہے، صرف پانی بہادینے سے بھی اگر وہ ناپاکی زائل ہوجائے، تو کافی ہے۔

البتہ اگر ناپاکی مثلا منی جسم پر لگ کر خشک ہوگئی ہو، تو اس پر پانی بہانے سے پہلے کھرچ لیں۔

2.ناپاک زمین یا فرش پر پاک چٹائی یا جائے نماز بچھا کر نماز پڑھنا درست ہے۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن أبي بن كعب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن للوضوء شيطانًا يقال له: \"ولهان\"، فاتقوا وسواس الماء»."

(باب ماجاء فى الوضوء مرة ومرتين، ج:1، ص:146، ط:دارإحياء كتب العربية)

المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی:

"وإذافركالمني اليابس عن الثوب وحكم بطهارة الثوب ثم أصاب الماء ذلك الثوب هل يعود نجساً فهو على الروايتين، وقد مرّ نظير هذا فيما تقدم.

وإذا كانت النجاسة على بدن الآدمي ذكر في «الأصل» أنها لا تطهر إلا بالغسل رطباً كان أو يابساً لها جرم أو لا جرم لها. وفي «القدوري» : لا يطهر شيء كان فيه نجاسة من ثوب أو بدن إلا بالغسل إلا المني فإنه يجوز فيه الفرك إذا كان يابساً على الثوب، وإن كان على البدن لا يكتفى بالحتّ ويغسل في رواية الحسن عن أبي حنيفة رحمهما الله، لأن البدن لا يمكن أن يفرك ولأن لمس البدن وتجاذ به فلا يزول بالحت منه ما يزول بالفرك في الثوب فبقي على الأصل."

(كتاب الطهارات، ج:1، ص:206، ط:دار الكتب العلمية)

رد المحتار میں ہے:

" (وسننه) كسنن الوضوء سوى الترتيب. وآدابه كآدابه سوى استقبال القبلة؛ لأنه يكون غالبا مع كشف عورة وقالوا: لو مكث في ماء جار أو حوض كبير أو مطر قدر الوضوء والغسل فقد أكمل السنة (البداءة بغسل يديه وفرجه) وإن لم يكن به خبث اتباعا للحديث (وخبث بدنه إن كان) عليه خبث لئلا يشيع."

(كتاب الطهارة، ج:1، ص:156، ط:سعيد)

وفيه أيضا:

"وكذا الثوب إذا فرش على النجاسة اليابسة؛ فإن كان رقيقاً يشف ما تحته أو توجد منه رائحة النجاسة على تقدير أن لها رائحة لايجوز الصلاة عليه، وإن كان غليظاً بحيث لايكون كذلك جازت."

(كتاب الصلاة، ج:1، ص:626، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508100614

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں