بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غصے میں بیوی کو طلاق، طلاق ، طلاق کہنے کا حکم


سوال

  زیدنےغصے میں آکراپنی بیوی کوکہا: ” طلاق، طلاق ، طلاق “، آگے یہ نہیں کہا کہ  تجھے دی یاتجھے ہے،  بس یہ الفاظ بولے ہیں،  آیااس صورت میں طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ اگر ہوگی توکتنی؟ 

جواب

صورتِ  مسئولہ مذکورہ شخص نے اگربیوی  سے   جھگڑے کے دوران   اپنی بیوی کو یہ الفاظ  "طلاق طلاق   طلاق " کہے ہوں تو ان الفاظ کے کہنے سے ہی اس کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی،  نکاح ختم ہو جائے گا، دونوں کا ساتھ رہنا جائز نہیں ہو گا  ، اب  نہ رجوع ہوسکتا ہے، اور نہ ہی تجدیدِ نکاح،  البتہ اگر عدت گزار کر عورت دوسری جگہ نکاح کرلے  اور دوسرا شوہر بیوی کے حقوق ادا کرے، اور پھر دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ  از خود طلاق دے دے اور اس  کی بھی  عدت گزر جائے تو پہلے شوہر سے شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے تقرر کے ساتھ دوبارہ نکاح کی اجازت ہوگی۔

ملحوظ رہے کہ مذکورہ جملے میں اگرچہ صراحتًا  بیوی کی طرف نسبت نہیں ہے، لیکن بیوی سے خطاب اور جھگڑا   طلاق کی نسبت  بیوی کی طرف  متعین  کرنے کے لیے کافی ہے۔

رد المحتار میں ہے:

"لو أراد طلاقها تكون الإضافة موجودةً و يكون المعنى فإني حلفت بالطلاق منك أو بطلاقك، ولايلزم كون الإضافة صريحةً في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له: من عنيت؟ فقال: امرأتي، طلقت امرأته، العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله: إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها؛ لأنه يحتمله كلامه".

 (كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، مطلب سن بوشن ج:3/ص348، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية".

(3/473، ط: ماجدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202084

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں