بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غصے کی حالت میں طلاق طلاق طلاق کہنے کا حکم


سوال

محمد خالد جس کی تین سال قبل شادی ہوئی، جس کے دو بچے ہیں ،ایک لڑکی اور ایک لڑکا، لڑکی کی عمر 2 سال اور لڑکے کی عمر چھ ماہ ہے، والدین کے ساتھ رہتے ہیں ،بچوں کے سلسلے میں ایک دن والدین اور بہنوں سے شدید قسم کا جھگڑا ہوا، بہن میری شادی شدہ ہے ،ہم والدین کی بہت عزت کرتےہیں، لیکن اس دن میرے عقل کو پردہ پڑ گیا اور میری زبان اور میرا نفس میرے قابو میں نہیں رہا، بات اتنی آگے بڑھ گئی کہ ہم نے اپنی شادی شدہ بہن کو مارا بھی ، بہن نے پھر کہا کہ آپ کی بیوی ایسی ہے ،اس کے یہ کہتے ہی زبان سے بےساختہ" طلاق طلاق طلاق "نکل گیا اور کہا" آج سے تم میرے لیے حرام ہو "،طلاق لفظ نکلتے وقت میں کس حالت میں تھا نہیں معلوم ،بیوی کس حالت میں تھی اور بہن اور والدین کہاں موجود تھے ہمیں نہیں معلوم،  میں اس وقت دور دور تک طلاق کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور نہ میرا ارادہ تھا طلاق کا ، غصہ معمول کے الٹ تھا ،پاگلو کی طرح ،اس دن اگر کسی کا خون بھی ہو جاتا، کچھ نہیں معلوم۔

سوال یہ ہےکہ اس صورت میں  طلاق ہوئی ہےیا نہیں ؟کیا ہم بیوی کے ساتھ رہ سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل کی بہن نےسائل کی بیوی کی شکایت کرتےہوئےیہ کہا کہ "آپ کی بیوی ایسی ہے"جس کے جواب میں سائل کی زبان سےغصےکی حالت میں "طلاق، طلاق، طلاق"کےالفاظ نکلےاورسائل نےاپنی بیوی سےیہ کہاکہ"آج سےتم میرےلیےحرام ہو" تواس  سےسائل کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، اب اس کی زوجہ اس پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، نکاح ختم ہوچکا ہے، اب نہ رجوع ہوسکتاہےاورنہ دوبارہ نکاح جائز ہے،بیوی اپنی عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے۔

البتہ جب بیوی اپنی عدت گزار کر دوسری جگہ شادی کرے اور دوسرے شوہر سے صحبت (جسمانی تعلق) قائم ہوجائے پھر اس کے بعد دوسرا شوہر اس کو طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہوجائے تو اس کی عدت گزار کر پہلے شوہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔

امداد الفتاویٰ میں ہے:

"سوال:میں نے حالتِ غصہ میں یہ کلمے کہے ہیں، (طلاق دیتا ہوں، طلاق، طلاق) اور میں نے کوئی کلمہ فقرہ بالا سے زیادہ نہیں کہا، اور نہ میں نے اپنی منکوحہ کا نام لیا، اور نہ اس کی طرف اشارہ کیا، اور نہ وہ اس جگہ موجود تھی، اور نہ اس کی کوئی خطا ہے، یہ کلمہ صرف بوجہ تکرار کے نکلے، جس وقت میرا غصہ فرو ہوا تو وہ اپنی زوجہ کو لے آیا، ان دو اشخاص میں ایک میرے ماموں اور ایک غیر شخص ہے، اور مستوراتیں ہیں۔

جواب: چونکہ دل میں اپنی ہی منکوحہ کو طلاق دینے کا قصد تھا، لہذا تینوں طلاقیں واقع ہو گئیں۔"

(کتاب الطلاق، جلد:2، صفحہ:427، طبع: مکتبہ دار العلوم کراچی)

فتاوی شامی  میں ہے:

"لو أراد طلاقها تكون الإضافة موجودةً ويكون المعنى فإني حلفت بالطلاق منك أو بطلاقك، ولايلزم كون الإضافة صريحةً في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له: من عنيت؟ فقال: امرأتي، طلقت امرأته، العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله: إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها؛ لأنه يحتمله كلامه".

 (كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، مطلب سن بوشن ،348/3، ط: سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وحال الغضب ومذاكرة الطلاق دليل إرادة الطلاق ظاهرًا فلايصدق في الصرف عن الظاهر".

(كتاب الطلاق، فصل في النية في نوعي الطلاق، 102/3، دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌وإن ‌كان ‌الطلاق ‌ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق،فصل فيما تحل به المطلقة... ،473/1، ط: مكتبه ماجديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100813

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں