بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غصہ کی حالت میں کہنا کہ میں مسلمان نہیں ہوں


سوال

1- ایک مسلمان شخص ہے جس کے پاس ایک شخص نماز کی دعوت دینے گیا تو اس نے کہا: "میں نہیں جاؤں گا، آپ کیا کر لیں گے؟" تو اس سےوہ کافر ہو جائےگا؟

2- ایک دوسرے مسلمان کے پاس گیا تو اس نےغصہ میں آکر کہہ دیا: "میں نماز نہیں پڑھوں گا، میں مسلمان نہیں ہوں"، تو کیا اس سے اس کی بیوی کو طلاق ہو جاۓ گی؟ اور اس پر اپنی بیوی سے ملنا حرام ہوجاۓگا جب تک کہ وہ کلمہ پڑھ کر پھرسے نکاح نہ کر لے؟ یا صرف اس لفظ کے کہنے پربیوی تو حرام ہوگی مگر فورًا توبہ کر لینے سے اس پر پھر سے نکاح لازم نہیں ہوگا؟ 

جواب

1- مذکورہ الفاظ کہنے سے وہ شخص کافر نہیں ہوا۔

2- سوال میں ذکر کردہ پہلے جملے: "میں نماز نہیں پڑھوں گا"  سے کہنے والا کافر تو نہیں ہوا، تاہم کسی مسلمان کو شعائرِ اسلام کے متعلق  اس طرح کے نامناسب الفاط نہیں  کہنے چاہییں جن سے شعائرِ اسلام کی توہین کا پہلو نکلتا ہو۔ اور سوال میں ذکردہ دوسرا جملہ "میں مسلمان نہیں ہوں"  اگر  واقعتًا مذکورہ شخص نے اپنے اختیار سے  کہا ہے تو  ایسے شخص  کے لیے توبہ و استغفار کے ساتھ ساتھ   تجدیدِ ایمان اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں (شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے تقرر کے ساتھ) تجدیدِ نکاح کرنا بھی ضروری ہے، اور آئندہ کے لیے اس قسم کے الفاظ سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

نیز داعی (نماز کی دعوت دینے والے) کو بھی  چاہیے کہ وہ  دعوت کے آداب کی رعایت کرتے ہوئے موقع کی مناسبت سے  دعوت دے۔ اگر کوئی شخص کسی کام میں مصرف ہے یا موقع ایسا ہے کہ  سامنے والا بات سننے کے لیے بالکل ہی تیار نہیں  ہے، اور دعوت دینے کی صورت میں وہ کچھ بھی کہہ سکتا ہے (جیسا کہ صورتِ مسئولہ میں ہوا) اس وقت دعوت نہ دی جائے، بعد میں مناسب موقع دیکھ کر پہلے اس سے  مناسبت پیدا کی جائے اور اسے اپنے سے مانوس کیا جائے، پھر جب بات سننے پر آمادہ ہو جائے، تب اسے دعوت دے، اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ وہ آپ کی بات  سنے گا، یا کم از کم اگر سنے گا نہیں تو ایسے الفاظ تو نہیں کہے گا جس سے (العیاذ بااللہ) وہ ایمان جیسی عظیم  دولت سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے۔ بہرحال مذکورہ داعی کو اپنے طرزِ دعوت پر بھی نظر کرلینی چاہیے، ممکن ہے کہ اس کا طرز ناصحانہ و حکیمانہ نہ ہو۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الفتح: من هزل بلفظ كفر ارتد وإن لم يعتقده للاستخفاف فهو ككفر العناد. (قوله: من هزل بلفظ كفر) أي تكلم به باختياره غير قاصد معناه، وهذا لاينافي ما مر من أن الإيمان هو التصديق فقط أو مع الإقرار لأن التصديق، وإن كان موجوداً حقيقةً لكنه زائل حكماً؛ لأن الشارع جعل بعض المعاصي أمارة على عدم وجوده كالهزل المذكور، وكما لو سجد لصنم أو وضع مصحفاً في قاذورة فإنه يكفر، وإن كان مصدقاً لأن ذلك في حكم التكذيب، كما أفاده في شرح العقائد، وأشار إلى ذلك بقوله: للاستخفاف، فإن فعل ذلك استخفافاً واستهانةً بالدين فهو أمارة عدم التصديق، ولذا قال في المسايرة: وبالجملة فقد ضم إلى التصديق بالقلب، أو بالقلب واللسان في تحقيق الإيمان أمور الإخلال بها إخلال بالإيمان اتفاقا، كترك السجود لصنم، وقتل نبي والاستخفاف به، وبالمصحف والكعبة.

وكذا مخالفة أو إنكار ما أجمع عليه بعد العلم به لأن ذلك دليل على أن التصديق مفقود، ثم حقق أن عدم الإخلال بهذه الأمور أحد أجزاء مفهوم الإيمان فهو حينئذ التصديق والإقرار وعدم الإخلال بما ذكر بدليل أن بعض هذه الأمور، تكون مع تحقق التصديق والإقرار، ثم قال ولاعتبار التعظيم المنافي للاستخفاف كفر الحنفية بألفاظ كثيرة، وأفعال تصدر من المنتهكين لدلالتها على الاستخفاف بالدين كالصلاة بلا وضوء عمدا بل بالمواظبة على ترك سنة استخفافا بها بسبب أنه فعلها النبي صلى الله عليه وسلم زيادة أو استقباحها كمن استقبح من آخر جعل بعض العمامة تحت حلقه أو إحفاء شاربه اهـ. قلت: ويظهر من هذا أن ما كان دليل الاستخفاف يكفر به، وإن لم يقصد الاستخفاف لأنه لو توقف على قصده لما احتاج إلى زيادة عدم الإخلال بما مر لأن قصد الاستخفاف مناف للتصديق (قوله: فهو ككفر العناد) أي ككفر من صدق بقلبه وامتنع عن الإقرار بالشهادتين عنادا ومخالفة فإنه أمارة عدم التصديق."

(کتاب الجہاد، باب المرتد، ج: 4، صفحہ: 222، ط: ایچ، ایم، سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"رجل كفر بلسانه طائعا، وقلبه مطمئن بالإيمان يكون كافرا ولا يكون عند الله مؤمنا كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب السير، الباب التاسع في أحكام المرتدين، مطلب في موجبات الكفر أنواع منها ما يتعلق بالإيمان والإسلام، ج: 2، صفحہ: 283، ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144204200968

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں