بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غصے کی حالت میں دی ہوئی تین طلاقوں کا حکم


سوال

بیوی کو غصے میں ایک وقت میں تین بار طلاق کہہ دے تو کیا تینوں طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں، یا صرف ایک طلاق؟ 

جواب

واضح رہے کہ غصے کی حالت  میں دی جانے والی بھی  طلاق واقع ہوجاتی ہے، اورطلاق عموماً غصہ میں ہی دی جاتی ہے۔

 صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتاً شوہر نے بیوی کو غصہ کی حالت میں تین بار طلاق کا لفظ کہہ دیا  تو  تین بار طلاق کے الفاظ کہنے سے   مذکورہ شخص کی بیوی پرتینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، دونوں کا نکاح ختم ہو چکا ہے، اور بیوی حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے،  اب رجوع  کرنا یا تجدیدِ نکاح کرنا جائز نہیں ہے،  عدت گزارنے کے بعد عورت  دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان، قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام : أحدها أن يحصل له مبادي الغضب بحيث لايتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه، الثاني : أن يبلغ النهاية فلايعلم ما يقول ولايريده، فهذا لا ريب أنه لاينفذ شيء من أقواله، الثالث : من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون، فهذا محل النظر والأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله اهـ ملخصًا من شرح الغاية الحنبلية، لكن أشار في الغاية إلى مخالفته في الثالث حيث قال: ويقع طلاق من غضب خلافًا لابن القيم اهـ وهذا الموافق عندنا لما مر في المدهوش."

( كتاب الطلاق۔ ج: 3، صفحہ: 244 ، ط: ایچ، ایم، سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية."

(ج:1، صفحہ: 473، ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم

ایک مجلس کی تین طلاقوں سے متعلق تفصیلی فتویٰ کے لیے یہاں کلک کیجیے۔


فتوی نمبر : 144209201048

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں