میرے غسل ِجنابت سے متعلق چند سوالات ہیں :
1- جب میاں بیوی کی شرم گاہ ملتے ہیں لیکن مرد دخول نہیں کرتا بس مس کرتا ہے تو کیا دونوں پر غسل واجب ہوجاتا ہے ؟
2- اگر مرد دخول کرتا ہے ،اور اپنا عضو باہر نکال لیتا ہے اوردونوں ہی فارغ نہیں ہوتے ،کیا اس صورت میں دونوں پر غسل واجب ہوجاتا ہے ؟
3- جب عورت پر غسل واجب ہوجائے تو کیا عورت کو فورا ًہی نہا لینا چاہیے یا صبح تک اس کی اجازت ہے ؟یاد رہے عورت اپنے بچے کو دودھ بھی پلاتی ہے ۔
4- میں غسل ِجنابت سے پہلے وضو کرتا ہوں لیکن میرا سوال یہ ہے کہ جب جسم ناپاک ہو تو غسل سے پہلے وضو کرنا کیوں ضروری ہے ؟کیا ہم پہلے وضو کرنے کے بجائے غسل کے بعد وضو نہیں کرسکتے ؟
واضح رہے کہ بیوی کے ساتھ ہم بستری میں اگردخولِ حشفہ (یعنی مرد کے عضو مخصوص کا اگلاحصہ عورت کی شرم گاہ میں داخل ہونا) پایاجائے تو اس سے مرد اور عورت دونوں پر غسل واجب ہوجاتاہے، انزال یعنی منی کا نکلنا شرط نہیں ہے۔
البتہ اگر میاں بیوی آپس میں اس طرح ملتے ہیں کہ ان دونوں کی شرم گاہیں ایک دوسرے سے مل جائیں، لیکن دخول نہ ہو اور انزال بھی نہ ہو تو اس سے ان دونوں میں سے کسی پر بھی غسل واجب نہ ہو گا، غسل کے وجوب کے لیے ضروری ہے کہ مرد کے آلۂ تناسل کا حشفہ (آگے کا حصہ) عورت کی شرم گاہ میں داخل ہو جائے، یا انزال ہوجائے، اگر ایسی صورت پیش نہ آئے تو غسل واجب نہیں ہو گا۔
اس تمہید کے بعد سوالات کے جوابات یہ ہیں :
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"(السبب الثاني الإيلاج) الإيلاج في أحد السبيلين إذا توارت الحشفة يوجب الغسل على الفاعل والمفعول به أنزل أو لم ينزل وهذا هو المذهب لعلمائنا. كذا في المحيط وهو الصحيح. كذا في فتاوى قاضي خان ولو كان مقطوع الحشفة يجب الغسل بإيلاج مقدارها من الذكر. كذا في السراج الوهاج۔"
(کتاب الطہارۃ،الفصل الثالث فی المعانی الموجبۃ للغسل ،ج:۱،ص:۱۵،دارالفکر)
وفيه ايضاّ:
"الجنب إذا أخر الاغتسال إلى وقت الصلاة لا يأثم. كذا في المحيط۔"
(کتاب الطہارۃ ،الباب الثالث فی المیاہ،ج:۱،ص:۱۶،دارالفکر)
حديث میں ہے :
"وعن عبد الله بن عمر أنه قال: ذكر عمر بن الخطاب لرسول الله صلى الله عليه وسلم أنه تصيبه الجنابة من الليل فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: «توضأ واغسل ذكرك ثم نم»۔"
( مشکاۃ المصابیح ،کتاب الطہارۃ،باب مخالطۃ الجنب ،ج:۱،ص:۱۴۱،المکتب الاسلامی)
وفيه أيضاّ:
"وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يتوضأ بعد الغسل۔"
(مشکاۃ المصابیح،کتاب الطہارۃ،باب الغسل،ج:۱،ص:۱۳۹،المکتب الاسلامی)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"(وعن عائشة قالت: «كان النبي صلى الله عليه وسلم لا يتوضأ بعد الغسل» ) : أي: اكتفاء بوضوئه الأول في الغسل، وهو سنة، أو باندراج ارتفاع الحدث الأصغر تحت ارتفاع الأكبر ; بإيصال الماء إلى جميع أعضائه، وهو رخصة، (رواه الترمذي) : أي: وهذا لفظه، (وأبو داود) : لكن بمعناه، وسكت عليه. قال ميرك: ولفظه عن عائشة قالت: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يغتسل ويصلي الركعتين وصلاة الغدوة، ولا أراه يحدث وضوءا بعد الغسل» ، (والنسائي وابن ماجه) قال ابن حجر: وقالوا: ولا يشرع وضوءان ; اتفاقا للخبر الصحيح: كان عليه الصلاة والسلام لا يتوضأ بعد الغسل من الجنابة۔"
(کتاب الطہارۃ،باب الغسل ،ج:۲،ص:۴۳۰،دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144308100465
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن