بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

غسل جنابت کے متعلق سوالات


سوال

میرے غسل ِجنابت سے متعلق چند سوالات ہیں :

1- جب میاں بیوی کی شرم گاہ  ملتے ہیں لیکن مرد دخول نہیں کرتا بس مس کرتا ہے تو کیا دونوں پر غسل واجب ہوجاتا ہے ؟

2- اگر مرد دخول کرتا ہے ،اور اپنا عضو باہر نکال لیتا ہے اوردونوں ہی فارغ نہیں ہوتے ،کیا اس صورت میں  دونوں پر غسل واجب ہوجاتا ہے ؟

3- جب عورت پر غسل واجب ہوجائے تو کیا عورت کو  فورا ًہی نہا لینا چاہیے یا صبح تک اس کی اجازت ہے ؟یاد رہے عورت اپنے بچے کو دودھ بھی  پلاتی ہے ۔

4- میں غسل ِجنابت سے پہلے وضو کرتا ہوں لیکن میرا سوال یہ ہے کہ جب جسم ناپاک ہو تو غسل سے پہلے وضو کرنا کیوں ضروری ہے ؟کیا ہم پہلے وضو کرنے کے بجائے غسل کے بعد وضو نہیں کرسکتے ؟

جواب

واضح رہے کہ بیوی کے ساتھ ہم بستری میں اگردخولِ حشفہ (یعنی  مرد کے عضو مخصوص کا اگلاحصہ عورت کی شرم گاہ میں داخل ہونا) پایاجائے تو اس سے مرد اور عورت دونوں پر غسل واجب ہوجاتاہے، انزال یعنی منی کا نکلنا شرط نہیں ہے۔

البتہ اگر میاں بیوی آپس میں اس طرح ملتے ہیں کہ ان دونوں کی شرم گاہیں ایک دوسرے سے مل جائیں، لیکن دخول نہ ہو  اور انزال بھی نہ ہو تو اس سے ان دونوں میں سے کسی پر بھی غسل واجب نہ ہو گا، غسل کے وجوب کے لیے ضروری ہے  کہ مرد  کے آلۂ  تناسل کا حشفہ (آگے کا حصہ) عورت کی شرم گاہ میں داخل ہو جائے،  یا انزال ہوجائے، اگر ایسی صورت پیش نہ آئے تو غسل واجب نہیں ہو  گا۔

اس تمہید کے بعد سوالات کے جوابات یہ ہیں :

  • مرد اگر دخول نہیں کرتا،  بلکہ صرف مس کرتا ہے تو اس وجہ سے ان پر غسل واجب نہیں ہوگا ۔
  • مرد نے چوں کہ دخول کرلیا ہے؛  لہذا دونوں پر غسل واجب ہے ،غسل کے واجب ہونے  کے لیے انزال شرط نہیں ۔
  •  میاں بیوی پر جب غسل واجب ہوجائے تو فی الفور غسل کرنا ضروری نہیں،  البتہ اگر فوراًغسل کرلے تو زیادہ بہتر ہے،  لیکن اگر صبح غسل کا ارادہ ہو تو وضو کرکے سونے  کا اہتمام  کرنا چاہیے، اور عورت اس حالت میں اپنے بچے کو  دودھ پلاسکتی ہے۔
  • غسل سے پہلے وضو کرنا سنت ہے اور اس کا سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلے وضو کرے،  پھر غسل کرے، البتہ وضو کیے  بغیر غسلِ جنابت کرلیا  تو بھی  پاکی حاصل ہوجائے گی ، غسل کے شروع میں وضو کرنا ضروری نہیں ہے، غسل میں منہ بھر کر کلی کرنا، اور ناک میں اچھی طرح پانی ڈالنا اور پورے بدن پر اس طرح پانی   بہانا کہ بال برابر حصہ بھی خشک نہ رہے ، فرض ہے۔اگر کسی نے غسل سے پہلے وضو نہیں کیا تو غسل کے بعد وضو کی ضرورت نہیں ؛ کیوں کہ  غسل میں پورے جسم کے ساتھ اعضائے وضو بھی دھل جاتے  ہیں، لہٰذا غسل کے بعد مستقل وضو کرنے کی ضرورت نہ ہوگی، بلکہ غسل کے فورًا بعد وضو کرنا مکروہ ہے،  البتہ اگر غسل کے بعد وضو ٹوٹ گیا تو نماز وغیرہ کے لیے بہرحال دوبارہ وضو کرنا ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"(السبب الثاني الإيلاج) الإيلاج في أحد السبيلين إذا توارت الحشفة يوجب الغسل على الفاعل والمفعول به أنزل أو لم ينزل وهذا هو المذهب لعلمائنا. كذا في المحيط وهو الصحيح. كذا في فتاوى قاضي خان ولو كان مقطوع الحشفة يجب الغسل بإيلاج مقدارها من الذكر. كذا في السراج الوهاج۔"

(کتاب الطہارۃ،الفصل الثالث فی المعانی الموجبۃ للغسل ،ج:۱،ص:۱۵،دارالفکر)

وفيه ايضاّ:

"الجنب إذا ‌أخر ‌الاغتسال إلى وقت الصلاة لا يأثم. كذا في المحيط۔"

(کتاب الطہارۃ ،الباب الثالث فی المیاہ،ج:۱،ص:۱۶،دارالفکر)

حديث  میں ہے :

"وعن عبد الله بن عمر أنه قال: ذكر عمر بن الخطاب لرسول الله صلى الله عليه وسلم أنه تصيبه الجنابة من الليل فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: «توضأ ‌واغسل ‌ذكرك ثم نم»۔"

( مشکاۃ المصابیح ،کتاب الطہارۃ،باب مخالطۃ الجنب ،ج:۱،ص:۱۴۱،المکتب الاسلامی)

وفيه أيضاّ:

"وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌لا ‌يتوضأ ‌بعد ‌الغسل۔"

(مشکاۃ المصابیح،کتاب الطہارۃ،باب الغسل،ج:۱،ص:۱۳۹،المکتب الاسلامی)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعن عائشة قالت: «كان النبي صلى الله عليه وسلم لا يتوضأ بعد الغسل» ) : أي: اكتفاء بوضوئه الأول في الغسل، وهو سنة، أو باندراج ارتفاع الحدث الأصغر تحت ارتفاع الأكبر ; بإيصال الماء إلى جميع أعضائه، وهو رخصة، (رواه الترمذي) : أي: وهذا لفظه، (وأبو داود) : لكن بمعناه، وسكت عليه. قال ميرك: ولفظه عن عائشة قالت: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يغتسل ويصلي الركعتين وصلاة الغدوة، ولا أراه يحدث وضوءا بعد الغسل» ، (والنسائي وابن ماجه) قال ابن حجر: وقالوا: ولا يشرع وضوءان ; اتفاقا للخبر الصحيح: كان عليه الصلاة والسلام لا يتوضأ بعد الغسل من الجنابة۔"

(کتاب الطہارۃ،باب الغسل ،ج:۲،ص:۴۳۰،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100465

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں