بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غسل خانے یا بیت الخلا میں یا وضو کے دوران اذان کا جواب دینے کا کیا حکم ہے؟/ ٹیلی وژن کی اذان کا جواب دینے حکم


سوال

1- اگر بندہ غسل خانے یا بیت الخلا  میں ہو  یا  وضو کر رہا ہو، تو اس دوران اذان کا جواب دینے کا کیا حکم ہے؟  اور اس کا ازالہ کس طرح کیا جائے؟

2- اگر  دور نمائی (ٹیلی ویژن)  میں اذان پہلے ہو جائے اور مسجد کی اذان بعد میں تو کس اذان کا جواب دیا جائے؟ 

جواب

1- بیت الخلا میں  اور غسل کے دوران اذان کا جواب دینا جائز نہیں، اور    قضائے  حاجت کے  لیے بیت الخلا  وغسل خانه میں موجود شخص  پر اذان کا جواب دینا بھی لازم نہیں۔ اور  اگر وضوخانہ  یا کسی پاک جگہ میں وضو کررہا ہو   تو   وضو  کی دعاؤں کی طرح  اذان  کا جواب دینا بھی جائز ہے، اسی  طرح  ایساغسل خانہ  جہاں بیت الخلا موجود نہ ہو، اور جگہ بھی پاک ہو، اور کپڑے اتارے ہوئے نہ ہوں وہاں اذان کا جواب دے سکتے ہیں۔

2- ٹیلی وژن کی اذان کا اعتبار نہیں، مسجد کی اذان پر جواب دینا  چاہیے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"يجب على السامعين عند الأذان الإجابة، وهي: أن يقول مثل ما قال المؤذن إلا في قوله: حي على الصلاة حي على الفلاح، فإنه يقول مكان حي على الصلاة: لا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم، ومكان قوله حي على الفلاح: ما شاء الله كان وما لم يشأ لم يكن. كذا في محيط السرخسي وهو الصحيح. كذا في فتاوى الغرائب وكذا في قول المؤذن الصلاة خير من النوم لا يقول السامع مثله ولكن يقول: صدقت وبررت، كذا في محيط السرخسي."

(الفتاوى الهندية: كتاب الصلاة،الباب الثاني في الأذان، لفصل الثاني في كلمات الأذان والإقامة وكيفيتهما (1/ 57)،ط.رشيديه)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

(ويجيب) وجوبا، وقال الحلواني: ندبا، والواجب الإجابة بالقدم (من سمع الأذان) ولو جنبًا لاحائضا ونفساء وسامع خطبة، وفي صلاة جنازة وجماع، ومستراح وأكل وتعليم علم وتعلمه.

(وفي رد المحتار): قوله:(ومستراح) أي: بيت الخلاء.

(الدر المختار مع رد المحتار: كتاب الصلاة، باب الاذان (3/ 396)،ط. سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وكذا تجب على السامع بتلاوة هؤلاء إلا المجنون؛ لأن التلاوة منهم صحيحة، كتلاوة المؤمن والبالغ وغير الحائض والمتطهر؛ لأنّ تعلّق السجدة بقليل القراءة وهو ما دون آية فلم يتعلّق به النهي فينظر إلى أهلية التالي، وأهليته بالتمييز وقد وجد فوجدسماع تلاوة صحيحة فتجب السجدة، بخلاف السماع من الببغاء والصدى؛ فإن ذلك ليس بتلاوة، وكذا إذا سمع من المجنون؛ لأن ذلك ليس بتلاوة صحيحة لعدم أهليته لانعدام التمييز."

 (کتاب الصلاة، فصل: شرائط جواز السجدة(1/ 186)،ط. دار الکتب العلمیة)

فقط، والله اعلم


فتوی نمبر : 144209201020

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں