بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غسل کے چھینٹیں پانی میں گرنے کا حکم


سوال

مجھے رات کو احتلام ہوا تھا، غسل کے دوران مجھے پتا نہیں تھا کہ گندگی کہاں لگی ہے، میں نے غسل سے پہلے کچھ حصوں کو دھو لیا اور پھر غسل کے دوران کئی بار ہاتھ سے پانی کے چھینٹیں پانی میں گر گئے ہوں گے، بعد میں پاؤں دھونے کے دوران مجھے پتا چلا کہ ران کے پاس گندگی لگی تھی، جس کا مجھے علم نہیں تھا تو غسل پر کوئی اثر تو نہیں پڑا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کے ہاتھوں سے پانی کے چھینٹیں غسل کے پانی میں گرے ہیں تو دیکھا جائے گا کہ آپ کے ہاتھ پر ظاہری ناپاکی موجود تھی یا نہیں، اگر آپ کے ہاتھ پر ناپاکی نہیں تھی تو ہاتھ سے جو چھینٹیں پانی میں گری ہیں اس سے پانی ناپاک نہیں ہو گا اور اگر ہاتھ پر ناپاکی لگی تھی اور ناپاکی کے چھینٹیں پانی میں گرے ہیں تو پانی ناپاک ہو جائے گا۔

سوال سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ناپاکی ہاتھ پر نہیں تھی بلکہ ران پر تھی، اب اگر ران سے چھینٹیں اُڑ کر غسل کے پانی میں گئے ہوں تو پانی ناپاک ہو جائے گا اور اگر ران سے چھینٹیں اُڑ کر پانی میں نہیں گئے، بلکہ صرف ہاتھ سے چھینٹیں پانی میں گئے (جب کہ ہاتھ پر ناپاکی نہیں تھی) تو پانی پاک رہے گا اور ران کی نجاست دور کرنے سے  غسل درست ہو گا۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"جنب اغتسل فانتضح من غسله شيء في إنائه لم يفسد عليه الماء. أما إذا كان يسيل منه سيلاناً أفسده، وكذا حوض الحمام على قول محمد - رحمه الله - لا يفسده ما لم يغلب عليه يعني لا يخرجه من الطهورية".

(کتاب الطہارۃ، الباب الثالث فی المیاہ، الفصل الثاني فيما لا يجوز به التوضؤ، جلد:1، صفحہ:23، طبع: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100787

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں