اگر ساتویں دن غسل کے بعد ایک قطرہ خون آۓ تو نماز اور روزے کا کیا حکم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں جس عورت کے بارے میں پوچھا جارہا ہے، اگرسوال میں اس عورت کی ماہواری کے دنوں کی عادت بیان کردی جاتی، تو حتمی جواب دینے میں آسانی ہوتی، تاہم یہاں اصولی طور پر جواب دیا جارہا ہے۔
مذکورہ خاتون کا آنے والا خون اگر دس دن سے پہلے بند ہو جائے تو یہ تمام ایام ناپاکی کے شمار ہوں گے، اور خاتون کی عادت کی تبدیلی کا حکم لگایا جائے گا، لہذا ان دنوں میں نماز اور روزہ کا حکم نہیں ہو گا۔
البتہ اگر دوبارہ آنے والا خون دس دن کے بعد بھی جاری رہا تو اس صورت میں عادت سے زائد ایام میں آنے والا خون استحاضہ شمار ہوگا، جس کا حکم یہ ہے کہ اس حالت میں خاتون ہر نماز کے وقت کے لیے طہارت حاصل کرکے (تجدیدِ وضو کرکے ) تمام عبادات کرنے کی پابند ہوگی، اور جتنے دنوں کی نمازیں یا روزے رہ گئے تھے ان کی قضا کرنے کی پابند ہوگی۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"الطھر المتخلل بین الدمین والدماء فی مدۃ الحیض یکون حیضاً ولو خرج أحد الدمين عن مدة الحيض بأن رأت يوما دما وتسعة طهرا ويوما دما مثلا لا يكون حيضا لأن الدم الأخير لم يوجد في مدة الحيض."
(كتاب الطهارة ، الفصل الاول في الحيض ج : 1 ص : 36 ط : رشيدية)
وفیه أیضاً:
"فان لم یجاوز العشرۃ فالطھر والدم کلاھما حیض سواء کانت مبتدأۃ او معتادۃ وان جاوز العشرۃ ففی المبتدأۃ حیضھا عشرۃ ایام وفی المعتادۃ معروفتھا فی الحیض حیض والطھر طھر."
(كتاب الطهارة ، الفصل الاول في الحيض ج : 1 ص :37 ط : رشيدية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509100646
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن