جب غسل واجب ہوجائے تو بدن سے گرنے والا پانی کب تک ناپاک ہوتا ہے؟
غسل کرنے والے کے جسم پر اگر کوئی ظاہری نجاست ہو تو اسے دھوتے ہوئے جو پانی استعمال ہو وہ عضو دھلتے ہی ناپاک ہوگا، ناپاک پانی کا ایک چھینٹا بھی بالٹی یا ٹب وغیرہ کے پاک پانی میں گر گیا تو سارا پانی ناپاک ہوجائے گا، اور کپڑوں یا بدن پر لگ گیا تو وہ جگہ بھی ناپاک ہوجائے گی، اسے پاک پانی سے دھوکر پاک کرنا ہوگا۔
اگر غسل کرنے والے کے جسم پر کوئی ظاہری نجاست نہ ہو تو غسل کرتے وقت استعمال شدہ پانی کے چھینٹیں ناپاک نہیں ہوں گے، بلکہ یہ پانی "ماءِمستعمَل" (استعمال شدہ پانی) کہلاتاہے، اور اس کا حکم یہ ہے کہ اگر یہ چھینٹے غسل کے پانی میں گر جائیں اور غسل کا غیر استعمال شدہ پاک پانی غالب ہو تو غسل کے پانی سے پاکی حاصل کی جاسکتی ہے، البتہ اگر استعمال شدہ پانی یا اس کے چھینٹیں غسل کے پانی پر غالب ہوجائیں تو وہ پانی اگرچہ پاک رہے گا، لیکن اس پانی سے وضو یا غسل درست نہیں ہوگا۔
"جنب اغتسل فانتضح من غسله شيء في إنائه لم يفسد عليه الماء. أما إذا كان يسيل منه سيلاناً أفسده، وكذا حوض الحمام على قول محمد - رحمه الله - لايفسده ما لم يغلب عليه يعني لايخرجه من الطهورية".
(فتاوی ہندیہ، ۱/۲۳، رشیدیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144204201042
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن