بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غسل میں کلی کے دوران غرارہ کرنے کا حکم


سوال

کیا غسل میں غرارے کرنا لازمی ہیں یا صرف کلی کرنا کافی ہے؟ کیا گلے کی نرم ہدی تک پانی کا غرارہ کے ذریعہ لے کے جانا غسل کا ایک فرض ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ غسل میں صرف کلی کرنا فرض ہے ، غرارے کرنا نہ لازم ہے اور نہ ہی فرض ہے، البتہ اس کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کرنا سنت ہے، اب مبالغہ کرنے کی دو صورتوں ہے، پہلی صورت تو یہ ہے کہ خوب اچھی طرح کلی کرے جس سے منہ اچھی طرح دھل جائے، اور دوسری صورت یہ ہے کہ غرارے کرے، نیز ان میں سے جس صورت پر بھی عمل کیا جائے تو مبالغہ کی سنت ادا ہوجائے گی، البتہ روزے دار کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ  غرارہ نہ کرے؛کیوں کہ اس سے  روزہ ٹوٹنے کا اندیشہ ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وغسل الفم) أي استيعابه، ولذا عبر بالغسل أو للاختصار (بمياه) ثلاثة (والأنف) ببلوغ الماء المارن (بمياه)  (والمبالغة فيهما) بالغرغرة، ومجاوزة المارن (لغير الصائم) لاحتمال الفساد؛ وسر تقديمهما اعتبار أوصاف الماء؛. لأن لونه يدرك بالبصر، وطعمه بالفم، وريحه بالأنف. ولو عنده ماء يكفي للغسل مرة معهما وثلاثا بدونهما غسل مرة.

(قوله: والمبالغة فيهما) هي السنة الخامسة. وفي شرح الشيخ إسماعيل عن شرح المنية: والظاهر أنها مستحبة.

(قوله: بالغرغرة) أي في المضمضة، ومجاوزة المارن في الاستنشاق، وقيل: المبالغة في المضمضة تكثير الماء حتى يملأ الفم. قال في شرح المنية والأول أشهر."

(سنن الوضوء، ج:1، ص:115، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144111201306

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں