بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غسل میں کوئی فرض رہ جائے تو غسل دوبارہ کرنا ہوگا یا نہیں؟


سوال

کوئی شخص غسل کرے، اور کوئی ایک فرض یا دو فرائض چھوڑ دے یا کرنا بھول جائے، اور تین چار دن یا بڑے عرصہ بعد ادا کرے، تو کیا اس شخص کا غسل پورا ہو جائے گا؟ یا پھر دوبارہ اسے سرسری سے غسل کرنا ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی سے فرض غسل میں کوئی فرض چھوٹ جائے  مثلًا:  کلی نہیں کی یا ناک میں پانی نہیں ڈالا،  تو غسل کرلینے کے بعد جس وقت بھی یاد آئے، چاہے جتنی دیر گزر چکی ہو،  تب بھی صرف کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا کافی ہوگا، مکمل غسل دوبارہ کرنے کی  ضرورت نہیں ہوگی ،البتہ  اس دوران جو نمازیں پڑھی گئی ہیں اگر وہ نفل ہیں تو  ان کا اعادہ لازم نہیں ہے، اور اگر فرض ہیں تو ان کا اعادہ کرنا لازم ہوگا۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"[فروع] نسي المضمضة أو جزءا من بدنه فصلى ثم تذكر، فلو نفلا لم يعد لعدم صحة شروعه.

وفي الرد : (قوله: لعدم صحة شروعه) أي والنفل إنما تلزم إعادته بعد صحة الشروع فيه قصدا، وسكت عن الفرض لظهور أنه يلزمه الإتيان به مطلقا."

(رد المحتار، كتاب الطهارة، ج: 1، ص: 155، ط: سعید)

رد المحتار میں ہے:

"(قوله ولمعة جنابة)  أي لو اغتسل وبقيت على بدنه لمعة لم يصبها الماء فتيمم لها ثم أحدث فتيمم له ثم وجد ما يكفيها فقط فإنه يغسلها به، ولا يبطل تيممه للحدث."

(رد المحتار، كتاب الطهارة، باب التيمم، ج: 1، ص: 256، ط: سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"إذا توضأ أو اغتسل وبقي على يده لمعة فأخذ البلل منها في الوضوء أو من أي عضو كان في الغسل وغسل اللمعة يجوز."

(كتاب الطهارة، الماء المستعمل، ج: 1، ص: 93، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100619

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں