بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غسل میں پہلے بال دھونے کا حکم


سوال

بعض عورتیں پہلےبال دھولیتی ہیں، بعد میں گردن کے نیچے سارے بدن پر پانی بہاتی  ہیں، کیا یہ صحیح ہے؟

جواب

واضح رہے کہ غسل کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ہاتھ دھوۓ جائیں، اس کے بعد  شرم گاہ کودھوۓ  پھر جسم میں جس جگہ نجاست لگی ہوئی ہے اس کو دھوۓ، پھر وضو کرے، اس دوران  منہ اور ناک میں اچھی طرح پانی ڈالے، اس کے بعد پورے بدن پر پانی بہائے ۔

پورے بدن پر پانی بہانے کے  دو طریقے فقہاءکرام نے تحریر کیے ہیں:

الف:پہلے دائیں کندھے  پر تین مرتبہ پانی ڈالے،  پھر سر پر پانی ڈالے، اس کے بعد پورے جسم پر پانی ڈالے اور جسم کو رگڑ کر دھوۓ، نیز اس طور پر پورے جسم میں  پانی بہاۓ کہ جسم کا کوئی حصہ خشک نہ رہے۔

ب:پہلے  تین مرتبہ اپنے سر پر پانی ڈالے، پھر تین مرتبہ داہنے(سیدھے) کندھے پر اور پھر تین بار بائیں(الٹے) کندھے پر پانی ڈالے، اس طرح کہ سارے جسم پر پانی بہہ جائے۔ ایک مرتبہ پانی بہانے کے بعد پہلے سارے جسم پر اچھی طرح ہاتھ پھیر لے پھر دوسری بار پانی بہائے تاکہ سب جگہ اچھی طرح پانی پہنچ جائے، کہیں سوکھا نہ رہے۔

دوسرے طریقے کوہمارے  اکابرنے حدیث سے موافقت کی بناء پر ترجیح دی ہے،لہذا صورت مسئولہ میں اگر کوئی عورت غسل کی ابتداء میں   اولا نجاست زائل کرنے کے بعد وضو کرکے سب  پہلے بال دھولے، پھر دائیں بائیں کندھے پر پانی ڈال کر پوراجسم اچھی طرح دھولے تو   اس کا  غسل  راجح  قول کی روشنی میں  سنت کے مطابق  ہوجاۓ گا۔  

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(ثم يفيض الماء) على كل بدنه ثلاثا مستوعبا من الماء المعهود في الشرع للوضوء والغسل وهو ثمانية أرطال ..... (وسننه) كسنن الوضوء سوى الترتيب. وآدابه كآدابه سوى استقبال القبلة؛ ............ (بادئا بمنكبه الأيمن ثم الأيسر ثم رأسه) على (بقية بدنه مع دلكه) ندباوقيل يثني بالرأس، وقيل يبدأ بالرأس وهو الأصح. وظاهر الرواية والأحاديث."

(كتاب الطهارة،سنن الغسل،158،159/1، ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(وأما) سننه فهي أن يبدأ فيأخذ الإناء بشماله، ويكفيه على يمينه فيغسل يديه إلى الرسغين ثلاثا، ثم يفرغ الماء بيمينه على شماله فيغسل فرجه، حتى ينقيه، ثم يتوضأ وضوءه للصلاة ثلاثا ثلاثا إلا أنه لا يغسل رجليه، حتى يفيض الماء على رأسه، وسائر جسده ثلاثا ثم يتنحى فيغسل قدميه، والأصل فيه ما روي عن ميمونة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أنها قالت: «وضعت غسلا لرسول الله صلى الله عليه وسلم ليغتسل من الجنابة فأخذ الإناء بشماله، وأكفأه على يمينه فغسل يديه ثلاثا، ثم أنقى فرجه بالماء، ثم مال بيده إلى الحائط فدلكها بالتراب ثم توضأ وضوءه للصلاة غير غسل القدمين، ثم أفاض الماء على رأسه، وسائر جسده ثلاثا، ثم تنحى فغسل قدميه."

(كتاب الطهارة،فصل الغسل،34/1، سعيد)

مراقی الفلاح شرح نور الایضاح میں ہے:

"ويبتدئ في" حال "صب الماء برأسه" كما فعله النبي صلى الله عليه وسلم "ويغسل بعدها" أي الرأس "منكبه الأيمن ثم الأيسر" لاستحباب التيامن."

(‌‌كتاب الطهارة،‌‌باب في الغسل،"فصل" في ‌سنن ‌الغسل،ص:46،المكتبة العصرية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(الفصل الثاني في سنن الغسل) وهي أن يغسل يديه إلى الرسغ ثلاثا ثم فرجه ويزيل النجاسة إن كانت على بدنه ثم يتوضأ وضوءه للصلاة إلا رجليه هكذا في الملتقط. 

وتقديم غسل الفرج في الغسل سنة سواء كان فيه نجاسة أم لا كتقديم الوضوء على غسل باقي البدن سواء كان هناك حدث أو لا. كذا في الشمني .... وكيفية الإفاضة أن يفيض الماء على منكبه الأيمن ثلاثا ثم على رأسه وسائر جسده ثلاثا.  كذا في معراج الدراية وهو الأصح .... وأن يدلك كل أعضائه في المرة الأولى وأن يغتسل في موضع لا يراه أحد."

(کتاب الطہارۃ،الباب الثاني في الغسل،الفصل الثاني في سنن الغسل،14/1، ط: رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويجب) أي يفرض (غسل) كل ما يمكن من البدن بلا حرج مرة كأذن و (سرة وشارب وحاجب و) أثناء (لحية) وشعر رأس ولو متبلدا لما في - {فاطهروا} [المائدة: 6]- من المبالغة (وفرج خارج) لأنه كالفم لا داخل؛ لأنه باطن، ولا تدخل أصبعها في قبلها به يفتي."

(كتاب الطهارة، فصل في الغسل، 152/1، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101597

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں