بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غسل میں کلی کرنے کی مقدار


سوال

فرض غسل کے لئے صرف ایک بار کلی کرنا اور ناک میں پانی چڑھانا کافی ہے؟ اگر کوئی منہ میں اچھی طرح پانی پہنچائے اور وہ پانی نگل جائے اس سے  فرض ادا ہوجائے گا،  کیا ایسا کرنے سے غسل درست ہوجائےگا؟ رہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں غسل میں صرف ایک بار کلی کرنا ناک میں پانی چڑھانا فرض ہے ،دو یا تین مرتبہ کلی کرنااور ناک میں پانی چڑھانا فرض نہیں ہے البتہ اس کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کرنا سنت ہے، اب مبالغہ کرنے کی دو صورتیں ہیں، پہلی صورت تو یہ ہے کہ خوب اچھی طرح کلی کرے جس سے منہ اچھی طرح دھل جائے، اور دوسری صورت یہ ہے کہ غرارے کرے، نیز ان میں سے جس صورت پر بھی عمل کیا جائے تو مبالغہ کی سنت ادا ہوجائے گی، البتہ روزے دار کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ  غرارہ نہ کرے؛کیوں کہ اس سے  روزہ ٹوٹنے کا اندیشہ ہے،اور اگر کوئی شخص منہ میں اچھی طرح پانی پہنچائے اور وہ پانی نگل جائے تو اس سے بھی فرض ادا ہو جائے گا، اور غسل درست ہو جائے گا، باقی ایسا نہیں کرنا چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وغسل الفم) أي استيعابه، ولذا عبر بالغسل أو للاختصار (بمياه) ثلاثة (والأنف) ببلوغ الماء المارن (بمياه)  (والمبالغة فيهما) بالغرغرة، ومجاوزة المارن (لغير الصائم) لاحتمال الفساد؛ وسر تقديمهما اعتبار أوصاف الماء؛. لأن لونه يدرك بالبصر، وطعمه بالفم، وريحه بالأنف. ولو عنده ماء يكفي للغسل مرة معهما وثلاثا بدونهما غسل مرة.

(قوله: والمبالغة فيهما) هي السنة الخامسة. وفي شرح الشيخ إسماعيل عن شرح المنية: والظاهر أنها مستحبة.

(قوله: بالغرغرة) أي في المضمضة، ومجاوزة المارن في الاستنشاق، وقيل: المبالغة في المضمضة تكثير الماء حتى يملأ الفم. قال في شرح المنية والأول أشهر."

(سنن الوضوء، ج:1، ص:115، ط: سعيد)

وفیہ ایضاً:

"(وفرض الغسل) أراد به ما يعم العملي كما مر، وبالغسل المفروض كما في الجوهرة، وظاهره عدم شرطية غسل فمه وأنفه في المسنون كذا البحر، يعني عدم فرضيتها فيه وإلا فهما شرطان في تحصيل السنة (غسل) كل (فمه) ويكفي الشرب عبا لأن المج ليس بشرط في الأصح".

(فرض الغسل، ج:1، ص:151، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"لو شرب الماء عبا أجزأه عن المضمضة".

(سنن الوضوء، ج،1 ص:116، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410101306

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں