بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غسل کی سنتیں


سوال

غسل کی کتنی سنتیں ہیں؟وضاحت کردیں۔

جواب

غسل کی سنتیں درج ذیل ہیں:

(1) تین مرتبہ دونوں ہاتھ گٹوں تک دھونا (2) استنجا کرنا اور جس جگہ بدن پر نجاست لگی ہو اسے دھونا (3) ناپاکی دور کرنے کی نیت کرنا (4) پہلے سنت کے مطابق وضو کرلینا (5) تمام بدن پر تین بار پانی بہانا۔ 

چوں کہ غسل سے پہلے سنت کے مطابق وضو کرنا بھی سنت ہے، اس لیے وضو کی جتنی سنتیں ہیں ان کی رعایت کرنا بھی غسل کی سنتوں میں شمار کیا گیا ہے، البتہ غسل میں اعضاء دھونے کی ترتیب مختلف ہے۔

وضو کی سنتیں درج ذیل ہیں:

(1)نیت کرنا (2)بسم اللّٰہ سے وضو شروع کرنا(3)دونوں ہاتھوں کو گٹوں تک تین تین بار دھونا، پہلے دایاں اور پھر بایاں ہاتھ دھونا(5)دانتوں میں مسواک کرنا (کم سے کم تین بار دائیں بائیں اوپر نیچے کے دانتوں پر)(6)داہنے ہاتھ سے پانی لے کر تین بار کلی  کرنا، (روزہ دار نہ ہو تو  غرارہ بھی کریں)(7)داہنے ہاتھ سے تین بار ناک میں پانی چڑھانا(8)بائیں ہاتھ سے ناک صاف کرنا(9)داڑھی کا خلال کرنا، یعنی انگلیوں کو گلے کی طرف سے داڑھی میں ڈال کر ایسے پھیرنا جیسے کنگھا کرتے ہیں (10) ہاتھ پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرنا(11)وضو میں دھلنے والے ہر حِصّے کو تین بار دھونا(12)پورے سر کا مسح کرنا(13)کانوں کا مسح کرنا(14)ترتیب سے وضو کرنا(15)داڑھی کے جو بال منہ  کے دائرے سے باہر ہیں ان کا مسح کرنا(16)وضو میں دھلنے والے حصوں کو پے در پے دھونا یعنی ایک حِصّے کے سوکھنے سے پہلے دوسرے کو دھونا۔

بدائع الصانع میں ہے:

"(وأما) سننه فهي أن يبدأ فيأخذ الإناء بشماله، ويكفيه على يمينه فيغسل يديه إلى الرسغين ثلاثا، ثم يفرغ الماء بيمينه على شماله فيغسل فرجه، حتى ينقيه، ثم يتوضأ وضوءه للصلاة ثلاثا ثلاثا إلا أنه لا يغسل رجليه، حتى يفيض الماء على رأسه، وسائر جسده ثلاثا ثم يتنحى فيغسل قدميه، والأصل فيه ما روي عن ميمونة زوج النبي - صلى الله عليه وسلم - أنها قالت: «وضعت غسلا لرسول الله - صلى الله عليه وسلم - ليغتسل من الجنابة فأخذ الإناء بشماله، وأكفأه على يمينه فغسل يديه ثلاثا، ثم أنقى فرجه بالماء، ثم مال بيده إلى الحائط فدلكها بالتراب ثم توضأ وضوءه للصلاة غير غسل القدمين، ثم أفاض الماء على رأسه، وسائر جسده ثلاثا، ثم تنحى فغسل قدميه» فالحديث مشتمل على بيان السنة، والفريضة جميعا."

(كتاب الطهارة، فصل الغسل، ج:1، ص:34، ط:دارالكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وسننه) كسنن الوضوء سوى الترتيب. وآدابه كآدابه سوى استقبال القبلة؛ لأنه يكون غالبا مع كشف عورة.

وفي الرد:(قوله: كسنن الوضوء) أي من البداءة بالنية والتسمية والسواك والتخليل والدلك والولاء إلخ وأخذ ذلك في البحر من قوله ثم يتوضأ.(قوله: سوى الترتيب) أي المعهود في الوضوء، وإلا فالغسل له ترتيب آخر ."

(كتاب الطهارة، سنن الغسل، ج:1،ص:56، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406100245

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں