بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غسل کرتے ہوئے پانی ختم ہوجائے تو کیا حکم ہے؟


سوال

اگر غسل کرتے وقت پانی ختم ہوجائے تو کیا کریں؟

 

جواب

غسل کرتے وقت پہلے ہی یہ دیکھ لینا چاہیے کہ پانی کی کتنی مقدار دستیاب ہے، اگر پانی کم ہو تو اسی حساب سے غسل کرنا چاہیے کہ کم از کم فرائض ادا ہوجائیں، لیکن اگر  کبھی غسل جنابت  کرتے ہوئے ایسا ہوگیا  تو  اگر پانی کا بندوبست  ممکن ہو ،خواہ غسل خانہ سے باہر آکر گھر میں یا کہیں قریب سے پانی کا انتطام ہوسکتا ہو، خواہ قیمتاً خریدنا پڑے اور قیمت کی ادائیگی پر قادر ہو  تو   پانی کا بندوبست کرنا ضروری ہوگا، اور پانی ملنے کے بعد جو اعضاء دھلنے سے رہ گئے ان کو دھولینا کافی ہوگا۔ لیکن اگر  پانی بالکل  نہ ملے تو پھر  باقی اعضاء کے غسل کے لیے  تیمم  کرنا ضروری ہوگا، اور تیمم کا طریقہ وہی ہوگا جو پورے غسل یا وضو کے لیے کیا جاتا ہے، یعنی دو مرتبہ دونوں ہاتھوں کو مٹی میں مار کر ایک مرتبہ پورے  چہرے کا مسح اور دوسری مرتبہ دونوں ہاتھوں کا کہنیوں سمیت مسح کرنا۔

الفتاوى الهندية (1/ 29):
جنب اغتسل وبقي لمعة وفني ماؤه يتيمم لبقاء الجنابة فإن أحدث تيمم للحدث فإن وجد ماء يكفيهما صرفه إليهما.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 255):
(فضل عن حاجته) كعطش وعجن وغسل نجس مانع ولمعة جنابة؛ لأن المشغول بالحاجة وغير الكافي كالمعدوم.

 (قوله: ولمعة جنابة) أي لو اغتسل وبقيت على بدنه لمعة لم يصبها الماء فتيمم لها ثم أحدث فتيمم له ثم وجد ما يكفيها فقط فإنه يغسلها به، ولا يبطل تيممه للحدث".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201401

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں