ایک بندہ اپنی بیوی کے ساتھ جماع کرتا ہے اور اس کے بعد اس کی بیوی غسل بھی کر جاتی ہے لیکن غسل کرنے کے کچھ دیر بعد اس کی بیوی کو منی آجاتی ہے اور کافی مقدار میں ہوتی ہے سوال یہ ہے کہ وہ عورت دوبارہ غسل کرے گی یا پہلا غسل کافی ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر میاں بیوی کے ازدواجی تعلق قائم کرکے غسلِ جنابت کرنے بعد اگر بیوی کی شرم گاہ سے شوہر کا مادہ منویہ باہر آجائے تو بیوی پر دوبارہ غسل کرنا لازم نہیں ہوگا، اور اگر بیوی کا اپنا مادہ منویہ نکل آئے (جس کا وقوع نادر ہے) تو اگر غسل سے پہلے عورت نے استنجا کیا تھا، یا سو گئی تھی یا (چالیس قدم یا اس سے ) زیادہ چلنے پھرنے کے بعد غسل جنابت کیا تھا اور اس کے بعد منی کے کچھ قطرے آگئے تو دوبارہ غسل واجب نہیں ہوگا، اگر فوراً غسل جنابت کرلیا تھا اور اس کے بعد اس کی بقیہ منی کے کچھ قطرات نکلے ہوں تو اس صورت میں دوبارہ غسل کرنا واجب ہوگا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"ولواغتسل من الجنابة قبل أن یبول أو ینام وصلی ثم خرج بقیة المنی فعلیه ان یغتسل عندهما خلافا لأبي یوسف ولکن لا یعید تلک الصلوة فی قولهم جمیعا،ولوخرج بعد مابال أو نام أو مشی لایجب علیه الغسل اتفاقا کذا فی التبیین."
(کتاب الطہارۃ ، ج نمبر ۱، ص نمبر ۱۴، دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے :
"فلواغتسلت فخرج منها منی أی منیها أعادت الغسل لاالصلوة وإلالا(بشهوة).... وإن لم یخرج من رأس الذکر(بها) وشرطه أبویوسف وبقوله یفتی فی ضیف خاف ریبة أو استحییٰ ، وفی القهستانی والتاتارخانیة معزیا للنوازل وبقول أبي یوسف رحمه الله نأخذ لأنه أیسر علی المسلمین قلت ولاسیما فی الشتا ء والسفر
(قوله وإن لم یخرج بها) أي بشهوة (قوله وشرطه أبويوسف) أي شرط الدفق (قوله قلت) ظاهره المیل إلي اختیارما فی النوازل ولکن أكثرالکتب علی خلافه ولاسیما قد ذکروا إن قوله قیاس وقولهما استحسان وأنه الأحوط۔فینبغی الافتاء بقوله فی مواضع الضرورة فقط تأمل."
(کتاب الطہارۃ، ج نمبر ۱، ص نمبر ۱۵۹، ایچ ایم سعید)
فقط واللہ اعلم
(قوله وإلا فلا ) أي وإن لم یکن منیها بل منی الرجل لا تعید شیئا وعلیها الوضوء ۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144109203172
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن