بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غسل دینے سے پہلے میت کے ایصالِ ثواب کے لیے قرآنِ مجید پڑھنے کا حکم/ فوت شدہ قضا نمازیں پڑھنے کا طریقہ


سوال

1۔ میت کو غسل دینے سے پہلے میت کے ایصال ثواب کے لیے قرآنِ مجید کی تلاوت یا کوئی اور دعائیں پڑھنا کیسا ہے؟ اور اس کا کیا حکم ہے؟

2۔ اگر کسی شخص سے کافی نمازیں قضاء ہوچکی ہو پانچ چھ سالوں کی، تو ان نمازوں کو کس ترتیب سے پڑھنا شروع کرے؟ اور اس طرح پڑھ سکتا ہے کہ ظہر کی قضاء نماز مغرب کے ٹائم میں پڑھے؟  یا ایسے نمازوں کے وقت کہ جن کے بعد مکروہ وقت ہوتا ہے جیسے کہ عصر اور فجر، تو عصر اور فجر سے پہلے قضاء نمازیں پڑھنا کیسا ہے؟

جواب

1۔ واضح رہے کہ میت کو غسل دینے سے پہلے اس کے ایصالِ ثواب کے لیے قرآنِ مجید یا دعائیں وغیرہ پڑھنا درست ہے۔

2۔ طلوعِ  آفتاب، غروبِ آفتاب اور زوال کے وقت قضا نمازیں پڑھنا جائز نہیں، ان تین اوقات کے علاوہ کسی بھی وقت  قضا نمازیں پڑھی جاسکتی ہیں۔ نیز فجر کے بعد طلوعِ آفتاب سے پہلے اور عصر کے بعد سورج زرد ہونے سے پہلے کے وقت میں اگرچہ قضا نمازیں پڑھنا جائز ہے، لیکن ان دونوں اوقات میں چوں کہ نوافل پڑھنا منع ہے، اس لیے ان دو اوقات میں قضا نمازیں عام جگہوں (مسجد وغیرہ) میں لوگوں کے سامنے پڑھنے کے بجائے گھر میں یا  تنہائی میں پڑھنا چاہیے، تاکہ فرض نمازوں  کے قضا کرنے کا گناہ لوگوں کے سامنے ظاہر  نہ  ہو؛  کیوں کہ شریعت میں اپنے گناہوں کا اظہار  بھی منع ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

"والأصل فيه ‌أن ‌الإنسان ‌له أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو قراءة قرآن أو ذكرا أو طوافا أو حجا أو عمرة أو غير ذلك عند أصحابنا للكتاب والسنة."

(كتاب الحج، باب الحج عن الغير، ج: 3، ص: 63، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"ويقرأ عنده القرآن إلى أن يرفع إلى الغسل كما في القهستاني معزيا للنتف. قلت: وليس في النتف إلى الغسل بل إلى أن يرفع فقط، وفسره في البحر برفع الروح. وعبارة الزيلعي وغيره تكره القراءة عنده حتى يغسل، وعلله الشرنبلالي في إمداد الفتاح تنزيها للقرآن عن نجاسة الميت لتنجسه بالموت قيل نجاسة خبث وقيل حدث، وعليه فينبغي جوازها كقراءة المحدث.

(قوله كقراءة المحدث)... [تنبيه] الحاصل أن الموت إن كان حدثا فلا كراهة في القراءة عنده، وإن كان نجسا كرهت، وعلى الأول يحمل ما في النتف وعلى الثاني ما في الزيلعي وغيره. وذكر ط أن محل الكراهة إذا كان قريبا منه، أما إذا بعد عنه بالقراءة فلا كراهة. اهـ.

قلت: والظاهر أن هذا أيضا إذا لم يكن الميت مسجى بثوب يستر جميع بدنه لأنه لو صلى فوق نجاسة على حائل من ثوب أو حصير لا يكره فيما يظهر فكذا إذا قرأ عند نجاسة مستورة وكذا ينبغي تقييد الكراهة بما إذا قرأ جهرا قال في الخانية: وتكره قراءة القرآن في موضع النجاسة كالمغتسل والمخرج والمسلخ وما أشبه ذلك، وأما في الحمام فإن لم يكن فيه أحد مكشوف العورة وكان الحمام طاهرا لا بأس بأن يرفع صوته بالقراءة، وإن لم يكن كذلك فإن قرأ في نفسه ولا يرفع صوته فلا بأس به ولا بأس بالتسبيح والتهليل وإن رفع صوته اهـ."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب صلاة الجنازة، ج: 2، ص: 194،193، ط: سعيد)

وفيه أيضاً:

"وجميع أوقات العمر وقت للقضاء إلا الثلاثة المنهية.

(قوله إلا الثلاثة المنهية) وهي الطلوع والاستواء والغروب ح."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب قضاء الفوائت، ج: 2، ص: 66، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ثلاث ساعات لا تجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاف إلى أن تزول وعند احمرارها إلى أن يغيب إلا عصر يومه ذلك فإنه يجوز أداؤه عند الغروب. هكذا في فتاوى قاضي خان... تسعة أوقات يكره فيها النوافل وما في معناها لا الفرائض. هكذا في النهاية والكفاية فيجوز فيها قضاء الفائتة وصلاة الجنازة وسجدة التلاوة. كذا في فتاوى قاضي خان. منها ما بعد طلوع الفجر قبل صلاة الفجر. كذا في النهاية والكفاية يكره فيه التطوع بأكثر من سنة الفجر."

(كتاب الصلاة، الباب الأول في مواقيت الصلاة وما يتصل بها، الفصل الثالث في بيان الأوقات التي لا تجوز فيها الصلاة وتكره فيها، ج: 1، ص: 52، ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506100806

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں