بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گناہوں سے توبہ کے وقت ان شاء اللہ کہنا


سوال

اگر کوئی شخص توبہ کرے اور یوں کہے کہ اب سے میں یہ گناہ نہیں کروں گا تو اس وقت ان شاء اللہ کہنا ضروری ہے اور کہنا ضروری ہو تو اس وقت کیوں کہا جاتا ہے یہ اشکال پیدا ہوتا ہے رہنمائی فرمائیے (2) نیز یہ وسوسہ آتا ہے کہ وقت اللہ کی مخلوق ہے۔

جواب

کسی بھی جائز اور اچھے کام کا عزم کرتے ہوئے ”ان شاء اللہ“ کہنے کا مقصد دراصل اس کام کو  اللہ تعالیٰ کی مشئیت پر موقوف کرنا اللہ تعالیٰ سے حسنِ ظن رکھتے ہوئے اس کام کے سر انجام دینے کا عزم کرنا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اس میں برکت پیدا ہوجاتی ہے اور اس کام کو کرنا آسان ہوجاتا ہے،  جب کہ ان شاء اللہ نہ کہنے میں   اعجاب (خود پسندی) اور اللہ تعالیٰ سے بے نیازی کا پہلو ہوتا ہے، اس لیے اس میں برکت  ختم ہوجاتی ہے۔ 

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بھی اس کا حکم دیا کہ :

{وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَلِكَ غَدًا (23) إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذَا نَسِيتَ وَقُلْ عَسَى أَنْ يَهْدِيَنِ رَبِّي لِأَقْرَبَ مِنْ هَذَا رَشَدًا } [الكهف: 23، 24]

ترجمہ :  "اور آپ کسی کام کی نسبت یوں نہ کہا کیجیئے کہ میں اس کو کل کروں گا،  مگر خدا کے چاہنے کو ملا دیجیئے اور جب آپ بھول جاویں تو اپنے رب کا ذکر کیجیئے اور کہہ دیجیئے کہ مجھ کو امید ہے کہ میرا رب مجھ کو (نبوت کی) دلیل بننے کے اعتبار سے اس سے بھی نزدیک تر بات بتلا دے"۔ (از بیان القرآن)

اس آیت کی تفسیر میں معارف القرآن میں منقول ہے:

"آئندہ کسی کام کے کرنے کو کہنا ہو تو ان شاء اللہ کہہ کر اس کا اقرار کرلیا کریں کہ ہر کام اللہ تعالیٰ کے ارادے اور مشیت پر موقوف ہے۔۔۔۔مسئلہ : اس آیت سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ ایسی صورت میں ان شاء اللہ کہنا مستحب ہے، دوسرے یہ معلوم ہوا کہ اگر بھولے سے یہ کلمہ کہنے سے رہ جائے تو جب یاد آئے اسی وقت کہہ لے یہ حکم اس مخصوس معاملہ کے لئے ہے جس کے متعلق یہ آیات نازل ہوئی ہیں، یعنی محض تبرک اور اقرار عبدیت کے لئے یہ کلمہ کہنا مقصود ہوتا ہے، کوئی تعلیق اور شرط لگانا مقصود نہیں ہوتا ۔۔۔ الخ (سورۃ کہف آیت نمبر24)

خلاصہ یہ ہے کہ اس طرح کے معاملات میں ان شاء اللہ کہنا مستحب ہے، فرض یا واجب نہیں ہے، لہذا گناہوں سے توبہ کرتے وقت بھی ان شاء اللہ کہنا مستحب ہے، تاکہ اللہ اس پر استقامت دے اور  یہ عزم پکا رہے، اور اس وقت یاد نہ رہا ہو تو جب یاد آجائے تب کہہ دینا چاہیے۔

(۲) سوال کا دوسرا جز ’’نیز یہ وسوسہ آتا ہے کہ وقت اللہ کی مخلوق ہے‘‘ واضح نہیں ہے، اس کی مکمل وضاحت کے ساتھ سوال دوبارہ ارسال فرمائیں۔

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144211201114

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں