بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گناہ پر اصرار کی وجہ سے قطع تعلّق کرنا


سوال

ایک شخص کی بہن پر حرمت مصاہرت ثابت ہوگئی، تین مختلف دارالافتاء سے فتویٰ حرمت مصاہرت ثابت ہونے کا ملا تھا۔ اس کے بعد وہ عورت والدین، بہنوں اور بھائیوں کی رضامندی سے اپنے خاوند کےساتھ رہنے لگی۔ سوائے اس عورت کے ایک بھائی کے، جس نے شروع میں اس عورت سے بول چال بند کیا، پھر گھر آنے سے منع کیا، جس پر تمام گھر والے اس کے مخالف ہوگئے، اس کے بعد اس بھائی نے تمام لوگوں بمع والدین سے قطع تعلق کردیا۔ اس واقع میں حرمت مصاہرت کے ثابت ہونے کے بعد، زوجین کے اکٹھا رہنے پر راضی ہونے والوں کے لیے کیا شرعی حکم ہے؟ اسی طرح اس بنیاد پر قطع تعلق کرنے والے بھائی کے بارے کیا شرعی حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ میاں بیوی میں اگر حرمت مصاہرت شرائط معتبرہ کے ساتھ ثابت ہوجائے تو اس کے بعد میاں بیوی ایک دوسرے پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتے ہیں، اس کے بعد شوہر کا بیوی سے تعلق رکھنا جائز نہیں ہوتا، بلکہ شوہر پر لازم ہوتا ہے کہ وہ بیوی سے متارکت کردے یعنی اسے یہ کہہ دے کہ میں تجھے چھوڑدیا یا طلاق دے دی، یا قاضی میاں بیوی میں تفریق کرادے۔

لہذا صورت مسئولہ میں  اگر واقعۃ سائل کے بہنوئی اور بہن کے درمیان  حرمت مصاہرت ثابت ہوگئی ہے تو میاں بیوی پر لازم ہے کہ فی الفور علیحدگی اختیار کریں ، اور توبہ واستغفار بھی کریں، ان کا ساتھ رہنا یا کسی کا ان کے ساتھ رہنے پرراضی ہونا جائز نہیں ہے۔

نیز  اگر  مذکورہ شخص نے اپنی بہن  سے شریعت کے حکم کی خلاف ورزی کی وجہ سے  بات چیت بند کی ہوئی  ہے تو یہ قطع تعلق کی وعید میں شامل نہیں ہوگا، اس لیے  کہ دینی امور میں اصلاح کی غرض سے قطع تعلق کرنا ثابت ہے۔

تاہم  مذکورہ شخص کو چاہیے کہ وہ حکمت، بصیرت اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی بہن اور  گھر والوں کی اصلاح کے لیے مختلف طریقوں سے کوشش کرتا رہے، اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ قطع تعلق سے ان کی اصلاح کی امید نہیں ہے، بلکہ مزید تعلق خراب ہورہے ہیں  تو یہ شخص اپنے گھروالوں سے تعلق بحال کرکے ان  کی اصلاح کی کوشش کرے، اور اگر یہ امید ہو  ان سے بات چیت بند کرنے سے ان کی اصلاح ہوسکتی ہے تو  وہ ذریعہ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، بہرصورت مقصد صرف قطع تعلق نہیں ہونا چاہیے، بلکہ  گھر والوں کو راہِ راست پر لانا ہو، اور ان کو گناہوں سے بچانا ہو، اور ان کی آخرت بنانے کی فکر ہو، اب یہ مقصد اگر  تعلق قائم رکھ کر حاصل کیا جاسکتا ہے، اس کو ترجیح دینی چاہیے، اور اگر  تعلق قائم ہونے سے نقصان ہو تو پھر دوسری صورت بھی اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔

مرقاة المفاتيح میں ہے:

"عن أبي أيوب الأنصاري - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ولا يحل للرجل أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرضهذا، وخيرهما الذي يبدأ بالسلام ". متفق عليه.»

...قال الخطابي: رخص للمسلم أن يغضب على أخيه ثلاث ليال لقلته، ولا يجوز فوقها إلا إذا كان الهجران في حق من حقوق الله تعالى، فيجوز فوق ذلك. وفي حاشية السيوطي على الموطأ، قال ابن عبد البر: هذا مخصوص بحديث كعب بن مالك ورفيقيه، حيث أمر صلى الله عليه وسلم أصحابه بهجرهم، يعني زيادة على ثلاث إلى أن بلغ  خمسين يوما. قال: وأجمع العلماء على أن من خاف من مكالمة أحد وصلته ما يفسد عليه دينه أو يدخل مضرة في دنياه يجوز له مجانبته وبعده، ورب صرم جميل خير من مخالطة تؤذيه. وفي النهاية: يريد به الهجر ضد الوصل، يعني فيما يكون بين المسلمين من عتب وموجدة، أو تقصير يقع في حقوق العشرة والصحبة دون ما كان من ذلك في جانب الدين، فإن هجرة أهل الأهواء والبدع واجبة على مر الأوقات ما لم يظهر منه التوبة والرجوع إلى الحق."

(8/ 3146،  کتاب الاداب، باب ما ينهى عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات، الفصل الاول، ط: دارالفکر)

عارضۃ الاحوذی میں ہے:

"واما ان كانت الهجرة لامر أنكر عليه من الدين كمعصية فعلها أو بدعة اعتقدها فليهجرهحتى  ينزع عن فعله وعقده  فقد أذن النبي صلي الله عليه وسلم فى هجران الثلاثة الذين خلفوا خمسين  ليلة حتى صحت توبتهم عند الله  فاعلمه فعاد اليه."

(عارضة الأحوذی لابن العربیالمالکی (8/ 116) ابواب البر والصلة، ط: دارالکتب العلمیة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406100699

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں