بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گناہوں سے توبہ کے بعد مزنیہ کے علاوہ خاتون سے نکاح


سوال

میرا سوال فتویٰ نمبر 144307200055 کے متعلق ہے اور حدیثِ  ابوہریرۃ میں  "المجاہرین"  کا مطلب کے متعلق ہے ۔ اور آپ نے اس میں  جواب دیئے ہیں کہ توبہ تائب  ہونے سے  سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، چاہے گناہ کھلم کھلا اعلانیہ  کیے ہوں یا چُھپ کر گناہ کیا ہو اور پھر لوگوں کے سامنے تذکرہ کر دیا ہو اپنے گناہ کا لیکن سچے توبہ سے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ میں غلط ماحول کی وجہ سے زنا کا مرتکب ہوا اور غلط ماحول کی وجہ سے ہی دوستوں سے اپنے گناہ کا تذکرہ بھی کیا،  لیکن اب سچے دِل سے توبہ تائب ہو چُکا ہُوں۔مُجھے پوچھنا یہ ہے کی وہ زانیہ مُجھ سے نکاح کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اور میرے گھر والوں  نے  ایک لڑکی دیکھی ہے میرے نکاح کے لیے  جو کہ  نیک اور پاک دامن لڑکی ہے ۔اور جب کہ توبہ تائب  ہونے سے میرے گناہ بھی معاف ہو گئے ہوں گے اور میں گناہ سے بالکل پاک صاف بھی ہو گیا ہوں گا ان شاء االلہ،  تو کیا میں اُس پاک دامن لڑکی سے نکاح کر سکتا ہوں، میرے لیے جائز ہے یا نہیں اِس نکاح میں کوئی حرج تو نہیں ہے؟

(2) میری زندگی اب بالکُل شریعت کے مطابق ہے اور میں گناہ سے بچتا ہوں ۔میں اب نماز کے مسائل اور قرآن اچھا پڑھتا ہوں، لوگ مُجھے نمازِ پڑھانے کے لیے  امام بنا دیتے ہیں، کیا میری امامتِ بلا کراہت درست ہے یا نہیں؟

جواب

جیساکہ  سائل  کو گزشتہ جواب میں یہ بتایا گیا تھا کہ سائل نے جو گناہ کیے ہیں ، ان گناہوں  پرندامت کے ساتھ صدق دل سے توبہ و استغفار کرے اور آئندہ ان کو  نہ کرنے کا عزم کرے، تو اس سے سائل کے تمام  گناہ معاف ہوجائیں گے، لہذا سائل اپنے گناہوں پر  توبہ واستغفار کرتا رہے، اور ہمیشہ استغفار کرنے کا معمول بنائے۔ نیز مزید سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:

1: سائل کے لیے اسی لڑکی سے نکاح کرنا ضروری نہیں ہے جس سے بدکاری کرلی تھی،  مذکورہ گناہ سے صدقِ دل سے توبہ تائب ہونے کے بعد کسی  دوسری لڑکی سے نکاح کرنا جائز ہے، لہذا صورت ِ مسئولہ میں مذکورہ لڑکی سے نکاح جائز ہے۔

2: توبہ کے بعد، امامت میں کراہت نہیں ہے۔

حدیث مبارک میں ہے:

"و عن عبد الله بن مسعود قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : "التائب من الذنب كمن لا ذنب له."

(مشکاۃ المصابیح ، کتاب الدعوات، باب الاستغفار و التوبة، 2/32، ط: المكتب الإسلامي) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101833

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں