بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

گناہ کرنے والے سے قطع تعلق کرنے کا حکم


سوال

میں پولیس ملازم ہوں،  ہم چھ  بندے ایک ساتھ موٹر سائیکل گشت پہ ڈیوٹی کرتے ہیں،  چھ  میں سے ایک نےلڑکا لڑکی کو رمضان میں کالے شیشے والی گاڑی میں پایا،  جو کہ زنا کر رہے تھے، یا ارادہ تھا،  وہی لڑکےنے ہزار روپے رشوت لیا،  اب باقی پانچ بھی اس میں گناہ گار  ہیں کہ نہیں،  جب کہ ہم نے اسے بار بار منع بھی کیا ہے،  وہ بولتا ہے:  میں جانو ں میری قبر،  اس سلسلے ہم سب اس سے قطع تعلق  رکھیں یا اعتدال سے کام لیں؟

جواب

از رُوئے شرع رشوت لینا اور دینا سخت گناہ ہے،مختلف احادیث میں رشوت لینے اور دینے والوں پر سخت وعیدیں آئی ہے، لہذا رشوت لینے والاسخت گناہ گار ہیں ،ایسے شخص پر صدقِ دل سے توبہ واستغفار کرنا لازم ہے، تاہم جب باقی ساتھی مذکورہ گناہ پر راضی نہیں تھے اور انہوں نے اپنے  ساتھی کو گناہ سے منع بھی کیاتو عنداللہ باقی ساتھی ماخوذ نہیں ہوں گے ، اور اگر وہ اس خلافِ شرع کام کا علم ہوتے ہوئے بھی خاموش اور مطمئن ہے، توبہ تائب نہیں ہوتا تو دیگر لوگوں کی عبرت کے لیے ان سے قطع تعلق کیاجائے،ایسے لوگوں کے ساتھ  تعلق قائم رکھ کر  ہم دردی کرنا  گناہ اور غلط کاموں میں معاونت اوران کی حوصلہ افزائی ہے، بشرطیکہ اس قطع تعلق کے نتیجے میں اس کی اِصلاح کی امید ہو۔ اور اگر قطع تعلق سے اس کے مزید بگڑنے کا اندیشہ ہو، اور وقتًا فوقتًا سمجھانا زیادہ مفید ہو تو قطع تعلق نہ کیا جائے، بلکہ گاہے گاہے اسے حکمت سے سمجھانے کی کوشش کی جائے۔

البتہ اجنبی لڑکے اور لڑکی کے خلوت  میں ہونے کی وجہ سے تمام سپاہیوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ قانونی طور پربھی ان کی گرفت کرتے، اور شرعی طور پر بھی ان کو مذکورہ فعل سے روکتےاور حکمت ومصلحت کے تحت  یہ بات ان کے بڑوں پر ظاہر کرتے، تاکہ آئندہ وہ اس طرح کے غیرشرعی افعال سے باز آجاتے، لہذا قانونی اور شرعی ذمہ داری کو بجا نہ لانے کی وجہ سے تمام ساتھیوں کو اپنے اپنی ذمہ داری پوری نہ کرنے کی وجہ صدقِ دل سے توبہ واستغفار کرنا چاہیے۔

فتح الباری شرح صحیح البخاری  میں ہے:

" أراد بهذه الترجمة بيان الهجران الجائز لأن عموم النهي مخصوص بمن لم يكن لهجره سبب مشروع فتبين هنا السبب المسوغ للهجر و هو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليكف عنها."

( قوله باب ما يجوز من الهجران لمن عصى، 10/497،ط:دارالمعرفۃ بیروت)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144209202241

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں